سلطان محمود غزنوی کی عدالت

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہم اپنی دنیا کی عارضی زندگی میں جو کام بھی سر انجام دیتے ہیں اگر وہ اچھا اور نیک کام ہے تو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء پر منحصر ہے کہ وہ اس دنیاوی زندگی میں ہی اس کا صلہ کسی بھی شکل میں عطا کردے یا پھر بروز محشر اس کا صلہ عطا کردے بالکل اسی طرح اگر کوئی گناہ یا غلطی سرزرد ہو جائے تو ماسکی سزا دنیا میں ذلت و رسوائی کی شکل میں دے دے یا بروز محشر اس کے انجام کا فیصلہ فرمائے یہ اس کی مصلحت پر منحصر ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جناب سلطان محمود غزنوی کا نام ہماری تاریخ میں کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے جب محمود غزنوی کی حکومت تھی تو ایک آدمی محمود غزنوی کے پاس اپنا کیس لے کر آیا اس نے کہا بادشاہ سلامت میرا کیس بڑا نرالا ہے بادشاہ سلامت نے کہا وہ کس طرح کہنے لگا یہ میرے پاس ایک تھیلی ہے یہ تھیلی پوری ہیروں سے بھری ہوئی تھی میں جب سفر پر جارہا تھا تو فلاں علاقے کے جو قاضی صاحب ہے میں جاتے ہوئے یہ تھیلی ان کے پاس بطور امانت چھوڑ گیا تھا کہ رستہ لمبا ہے کہیں کوئی مجھ سے یہ تھیلی چھین نہ لے کچھ دنوں کے بعد جب میں واپس آیا ہوں تو قاضی صاحب نے مجھے جو تھیلی واپس کی اس میں ہیروں کی بجائے کھوٹے سکے نکلے اور جب میں نے قاضی صاحب سے کہا تو قاضی صاحب تو میرے گریبان تک آگئے وہ کہتے ہیں کہ تم نے جو تھیلی میرے پاس رکھوائی تھی وہ میں نے تمہیں واپس کردی اب اس میں کیا تھا اور کیا ہے اس سے میرا کیا لینا دینا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ قاضی مجھے کہنے لگا کہ اگر تھیلی کہیں سے پھٹی ہے یا کھلی ہے تو مجھے بتاؤ اور جس طرح ٹانکے لگا کر تونے سی تھی اسی طرح لگے ہوئے ہیں کہ نہیں؟ جب میں نے غور سے دیکھا تو لگ یہ ہی رہا تھا کہ نا پھٹی ہے نہ کھلی ہے لیکن اب میں لٹ گیا ہوں میری عمر کی ساری کمائی ضایع ہو گئی کھوٹے سکےکہاں اور ہیرے کہاں تو مہربانی کریں اور کچھ تو کریں ورنہ میں تو برباد ہو جائوں گا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ آب کی بارگاہ میں اللہ رسول کے نام پر حلف دیتا ہوں کہ میں بالکل سچ کہ رہا ہوں سلطان محمود غزنوی کہنے لگے تم جائو اور یہ تھیلی چھوڑ جا ئو اور جب میں تمہیں بلاؤں تو پھر دوبارہ آنا وہ شخص چلا گیا سلطان محمود غزنوی اٹھے دربار برخاست کیا لوگوں سے کہنے لگے اچھا بھئی میں بہت تھک گیا ہوں میں تین دن کے لیے سیر کرنے جا رہا ہوں تین دن کے بعد لوٹوں گا بادشاہ کی بات سن کر لوگ وہاں سے چلے گئے بادشاہ جب اکیلے رہ گئے دربار میں تو اپنے غلام محبوب سے چاقو منگوایا وہ جس تخت پر بیٹھتے تھے وہاں گدہ بچھا ہوا تھا سلطان محمود غزنوی نےچاقو کے ساتھ اس کو پھار ڈالا اور چاقو جیب میں رکھا اور باہر نکل گئے کہنے لگے میرے بعد کوئی میرے دربار میں داخل نہ ہو سوائے صفائی کرنے والے کے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سلطان محمود غزنوی چلے گئے اب وہ صفائی کرنے والا جب آیا تو اس نے آکر دیکھا کہ گدہ تو پھٹا ہوا ہے اس نے شور مچانا شروع کردیا پہرے دار بھی آگئے فلان صاحب بھی آگئے فلاں صاحب بھی اگئے کسی نے کہا اوہ خدا کے بندو بادشاہ کا گدہ پھٹ گیا ہے وہ تو مار ڈالے گا اس نے کہا تھا سوائے صفائی اور نگرانی والے کے دوسرا کوئی نہیں آنا چاہئے اور یہاں آیا بھی کوئی نہیں پہلے دن ہی معاملہ خراب ہو گیا وہ تو لٹکا دے گا سب کو کیا کریں؟ شور ہو گیا سارے دربار کے ملازمین ا کٹھے ہو گئےاتنے میں ایک بندہ کہنے لگا فکر نہ کرو میں ایک ایسے بندے کو جانتا ہوں جواس گدے کو اچھی طرح سے سی دے گاوہ یہ کام بخوبی کرسکتا ہے اور وہ اس پھٹنے ہوئے ٹکڑے کو اس طرح صحیح کردے گا کہ جس نے پھاڑا ہو گا اسے بھی پتا نہیں چلے گا کہاں سے پھٹا تھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس شخص نے کہا کہ ایسا بہترین رفو کرے گا کہ پتا بھی نہیں چلے گا تو سب نے کہا یار ہم سارے ایک ایک مہینے کی تنخواہ دیتے ہیں تو بندہ بلا تو وہ شخص اس شخص کو بلا لیا اس کا نام احمد رفو گر تھا وہ آیا اس کو گدہ دکھایا اس کو کہا یار اس طرح سینا کہ پتہ نہ چلے اس نے کہا فکر ہی نہ کرو یہ میرے بائے ہاتھ کا کھیل ہے میں بڑا کاریگر ہوں احمد رفوگر نام ہے میرا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ کہنے لگا اس طرح سلائی کروں گا کہ پھاڑنے والے کو بھی پتا نہیں چلے گا ان لوگوں نے کہا یہ تو ٹھیک ہے جلدی کر اور اس کو سینا شروع کر اور کچھ دیر میں اس نے گدہ کی اچھی طرح سلائی کرکے اسے بچھا دیا اور کہنے لگا کہ چیک کرلو اور کوئی یہ ثابت کردے کہ یہ گدہ پھٹا ہوا تھا تو میں مان جائوں یہ بات کہکر وہاں سے چلا گیا جب بادشاہ کو گئے ہوئے تین دن ہوگئے اور تیسرے دن جب بادشاہ سلامت آئے آکر پہلی نظر گدے پر ڈالی دیکھا کہ گدہ سی دیا گیا ہے تو اس نے تمام ملازمین کو بلوایا اور کہا کہ اس گدے کی سلائی کس نے کی ہے تو ملازمین نے کہا بادشاہ سلامت کون سی سلائی کون سا گدہ ؟ تو بادشاہ نے کہا کہ یہ گدہ پھٹا ہوا تھا ملازموں نے کہا نہیں یہ کب پھٹا ہوا تھا فرمایا میں خود پھاڑ کر گیا تھا تو بتاؤ کس نے سلائی کی اس کی ملازموں نے کہا جناب آپ پھاڑ کرکے گئے تھے تو بتایا کیوں نہیں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ فرمانے لگے اسی لئے تو بتایا نہیں تھا کہ تم خود تحقیق کر لو بتاؤ کس نے سلائی کی تو انہوں نے پھر مجبور ہوکر بلالیا احمد رفوگر کو وہ آ گیا اس کو جب بلا کر بادشاہ کے سامنے کھڑا کیا اور پوچھا بھئی تونے سیاہ ہے کہنے لگا حضور آپ کے سارے ملازم ا کٹھے ہو کر آئے تھے میری غلطی نہیں ہے تو بادشاہ نے کہا نہیں یار تو بڑا کاریگر ہے میں نے اپنے ہاتھ سے اس کو پھاڑا تھا پر مجھے بھی نہیں پتا چل رہا کہ کہاں سے پھاڑا تھا پھر بادشاہ یعنی سلطان محمود غزنوی نے وہ ہیرے والی تھیلی اس کے سامنے رکھی اور پوچھا کہ اچھا یہ بتائو یہ تھیلی جو ہے کیا اس کی سلائی بھی تم نے کی تھی اس نے تھیلی کو غور سے دیکھا اور کہا جی آپ کے خادم کا ہی کارنامہ ہے وہ فلاں علاقے کے قاضی صاحب آئے تھے اس میں سے ہیرے نکال کر کھوٹے سکے بھرے تھے تو مجھے بھی تھوڑا سا حصہ ملا تھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سلطان محمود غزنوی نے اپنی زبردست عقلمندی سے سارے گواہ بھی اکٹھے کر لیے ثبوت بھی اکٹھے کر لیے اور پھر ایک دن قاضی کو بلایا پہلے سارے ثبوت اکٹھے کر کے قاضی صاحب کو بلایا تنہائی میں لے جا کے سلطان محمود غزنوی نے کہا قاضی صاحب آپ سے غلطی ہو گئی غریب آدمی تھا وہ لٹ گیا ہے اس نے تو بڑی مشکل سے کچھ ہیرے جمع کیے تھے اور وہ اس کی کل کائنات تھی تو آپ اس کا مال اسے دے دیں قاضی صاحب کہنے لگے آپ مجھ پہ الزام لگا رہے ہیں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا آپ میری داڑھی دیکھیں آپ میرا اعزاز دیکھیں دنیا جانتی ہے مجھے بادشاہ نے کہا قاضی صاحب انسان سے بھول ہوجاتی ہے میں تنہائی میں پوچھ رہا ہوں میں اس وقت پوچھ رہا ہوں جب دوسرا کوئی موجود نہیں آج توبہ کر لیں میں کچھ نہیں کہوں گا، میری زبان پر اعتبار کرو تمہیں پتہ ہے میں جو کہتا ہوں اس پر عمل بھی کرتا ہوں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ نے کہا کہ باز آجاؤ پر قاضی نے کہا نہیں میری کوئی غلطی نہیں جب وہ کسی طرح سے بھی ماننے کو تیار نہ ہوا تو سلطان محمود غزنوی نے پھر بھرے دربار میں احمد رفوگر کو بلوالیا جب احمد رفوگر آیا تو بڑے قاضی کی ٹانگیں کانپنے لگیں جملے ٹوٹنے لگے لفظ زمین پر گرنے لگے بات صحیح نہیں ہو رہی تھی زبان لڑکھڑانے لگی سلطان محمود غزنوی کہنے لگے قاضی میں نے تمہیں کہا تھا وہاں مان جائو اب بڑے دربار میں بولنا پڑے گا تو قاضی صاحب کی گردن خود بخود جھوک گئی تو دنیا سمجھ گئی کہ یہ ہی قصور وار ہے پھر بادشاہ جلال میں آگیا اس نے کہا نکل جائو اسی وقت میرے دربار سے محمود غزنوی بولے نکل جائو اتنی تمہیں عزت دی اتنی بڑی تنخواہ دی قاضی بنایا اور یہ چھوٹی سی رقم کے لیے چھوٹی سی رقم کے لیے تُم بد دیانت ہوگئےچلو جائو یہاں سے چلے جائو قاضی نادم ہوکر سر کو جھکائے دربار سے نکلا تو لوگ لعنت ملامت کرنے لگے کل جو دکانیں چھوڑ کے سلوٹ کرنے آتے تھے وہ کہنے لگے اس کی عمر دیکھو اس کے کام دیکھو دیکھو اس نے کیا کردکھایا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اور پھر جب وہ گھر گیا تو بچے کہنے لگے ابا جی ہم تو سکول مدرسہ جانے کے قابل بھی نہیں رہے امید تھی کہ بیوی ساتھ دے گی وہ کہنے لگی میں اپنے میکے کیسے جاؤں گی گلی کی عورتیں طرح طرح کی باتیں بناتی ہیں یہ سارے معاملات دیکھ کر قاضی بہت نادم ہوا شرمندہ ہوا لیکن دنیا والوں کی نظر میں اب اس مقام وہ نہیں رہا جو پہلے تھا ویسے بھی کامیابیوں کے بڑے سربراہ ہوتے ہیں اگر انسان کامیاب ہو جائے تو سارے کہتے ہیں میری سپورٹ سے ہوا ہے ناکامیاں ہمیشہ یتیم ہوتی ہیں ناکامیوں کا کوئی سربراہ نہیں ہوتا جب تک قاضی تھا تو بڑےبڑے لوگ آگے پیچھے گھومتے تھے لیکن آج ایک غلطی ایک بددیانتی کی وجہ سے کوئی ساتھ نہیں نہ صرف رسوا ہوا دنیا کی نظروں میں بلکہ اپنوں کی نظر میں بھی کوئی وقعت نہیں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قاضی خاموشی سے اندر چلا گیا اپنی رسوائی سمیٹ کے بستر پر لیٹا نہ روٹی کی بھوک لگی نہ پانی کی پیاس لگی نہ نیند آئی ساری رات تڑپتا رہا سویرے گھروالوں نے دروازہ کھولا اور اسے اٹھایا تو روح پرواز کر چکی تھی اس کی روح دنیا چھوڑ گئی تھی اسے موقع بھی ملا سلطان محمود غزنوی نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کا موقع فراہم کیا لیکن شاید وہ اس وقت شیطان کے گہرے میں تھا اور اپنی ضد پر قائم رہا اور جب شیطان اپنا کام کرکے رخصت ہوگیا اور اسے ہوش آگیا تو وقت نکل چکا تھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابو نور علی رحمہ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کبھی بددیانتی نہ کرنا یہ تو سلطان محمود غزنوی کی عدالت تھی قیامت میں رب کریم کی عدالت لگے گی اور فرمایا یہاں تو گوائی دینے والا احمدرفو گر تھا قیامت میں تو تمہارے اپنے ہاتھ پیر گوائیاں دیں گے اپنا سارا وجود گوائی دے گا اور فرمایا یہاں تو دنیادار لوگ لعنت برساتے تھے وہاں فرشتے ہوں گے اور قاضی کو تو شرمندگی کے مارے موت آگئی تھی قیامت میں تو دوبارہ موت بھی نہیں آئےگی وہاں تو رہنا ہوگا اور سہنا ہوگا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بددیانتی کا جرم نہ دنیا میں جینے دیتا ہے اور نہ ہی یہ آخرت میں چین اور سکون کا باعث ہوگا دنیا عارضی زندگی میں بددیانت انسان کا جرم جب تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے تب تک وہ بچا ہوا بھی ہے اور اسے صحیح راستے پر آجانے کی مہلت بھی ہے لیکن جب تیر کمان سے نکل جائے تو پھر سوائے ذلت رسوائی اور بیعزتی کے اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا اس معاملہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ دنیاوی زندگی میں اگر ہم سے کوئی گناہ سرزرد ہو جائے اور اللہ رب العزت توبہ کا موقع فراہم کردے تو اسی وقت توبہ کرلے ہوسکتا ہے کہ ہماری توبہ اللہ تعالیٰ کو پسند آجائے اور وہ اس گناہ کو معاف کرکے ہمیں اسی دنیا میں عزت و وقار کی دولت عطا کردے ورنہ ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن جائے گی ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 130 Articles with 88891 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.