ہماری زندگی پر صحبت کا اثر ( حصہ دہم دسواں حصہ )

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہماری زندگی پر احادیث کا اثر کے عنوان سے جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اس میں اب تک میں 9 احادیث پر آرٹیکل آپ تک پہنچا چکا ہوں یعنی حصہ نہم تک کچھ عرصہ غیر حاضری کے بعد دوبارہ یہ سلسلہ شروع کر رہا ہوں اور حصہ دہم لیکر یعنی دسویں حدیث لیکر حاضر خدمت ہوں آج کی یہ حدیث معروف کتاب کنزالعمال سے لی گئی ہے اور اس میں اہل علم والوں کا ذکر خیر ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ بروز محشر عالم اور عابد پل صراط پر جمع ہوں گے تو عابد سے کہا جاۓ گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ اور اپنی عبادت کے سبب ناز و نعمت کے ساتھ رہو اور عالم سے کہا جاے گا کہ یہاں ٹھہر جاؤ اور جس شخص کی چاہو شفاعت کرو۔ اس لیے کہ تم جس کسی کی شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔ تو وہ انبیاے کرام کے مقام پر کھڑا ہوگا۔
(کنز العمال ج۱۰ص٧٨)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث کی تفسیر میں دنیاوی زندگی میں موجود ان اہل علم لوگوں کی اشارہ کیا گیا جن کا تعلق علم حقیقی سے ہے یعنی وہ لوگ جو دنیا میں عالم دین , مفتی , حافظ قرآن اور کسی بھی دینی تعلیم کے فروغ کی مصروفیت میں عمل پیرا رہے اپنا علم دوسروں تک منتقل کرکے انہیں باعمل بنانے میں مصروف عمل رہا تو انہیں یہ منصب اور اعزاز دیا جائے گا کہ بروز محشر ان کی وجہ سے کئی لوگوں کی شفاعت ہو جائے گی ۔قران مجید فرقان حمید کی سورہ الانبیاء کی آیت نمبر7 اور سورہ النحل کی آیت نمبر 43 میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ
فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
ترجمعہ کنزالایمان:
" اے لوگوں علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان آیات مبارکہ میں " علم والوں " کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اب یہ علم والے کون ہیں ؟ یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر حدیث مبارکہ میں کیا گیا ہے ہم جس معاشرے میں اپنی زندگی گزارنے میں مصروف ہیں یہاں والدین کو بچے کی پیدائش کے بعد جب وہ چلنا پھرنا اور بولنا سیکھ جاتا ہے تو سب سے بڑی فکر اسے اچھی تعلیم دلوانے کی ہوتی ہے جسے میں دنیا کا عارضی علم یا تعلیم کہتا ہوں اور اس سلسلے میں بدقسمتی سے شہر کے اعلی سے اعلی انگلش میڈیم اسکول کی تلاش میں سرگرداں ہوکر مہنگی فیس دینے کو والدین تیار ہو جاتے ہیں لیکن کسی کا دھیان اپنے بچوں کا دینی تعلیم جسے میں حقیقی علم کہتا ہوں کی طرف نہیں جاتا دنیاوی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے لیکن دین کا علم انتہائی ضروری ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اصل میں آج کے دور میں جہاں ہر شعبہ میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کے لئے انسان مصروف عمل ہے وہاں دنیاوی عارضی تعلیم کا بھی یہ ہی حال ہے اور آج کے والدین کے ذہنوں میں یہ بات اچھی طرح سے باور کروادی گئی ہے کہ اس معاشرے میں ایک عالم دین ہو ایک حافظ قران ہو یا کوئی دینی تعلیم کا استاد اس کا کوئی خاطر خواہ مستقبل نہیں ہے یعنی وہ اپنا گھر چلانے کے لئے اس معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا اس لئے ہمارے یہاں لوگوں کا رجحان اس طرف کم کم ہے اور یہ سوائے بدقسمتی کے کچھ نہیں جبکہ ہر اہل ایمان مسلمان یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس دنیا میں بعد میں بھیجتا ہے اس کا رزق پہلے اتار دیتا ہے اس کا بندوبست وہ پہلے ہی کردیتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بات یقین کامل کی ہے ہمیں اپنے رب تعالی پر پورا بھروسہ ہوگا تو صرف دنیا کا فائدہ نہیں دیکھیں گے بلکہ آخرت کا بھی سوچیں گے اور جب تک ہم خود اہل علم والوں کی صحبت اختیار نہیں کرتے تو پھر ہم اپنے بچوں کو ان کی صحبت فراہم کرنے میں کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے بعد آنے والے صحابہ کرام علیہم الرضوان ، تابعی ، تبہ تابعی بزرگان دین اور اولیاء کرام کے علم حقیقی کا وہ عالم تھا کہ ان کے علم کے فیوض و برکات کا سلسلہ اب تک جاری ساری ہے اور صبح قیامت تک رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اہل علم کے مقام و مرتبہ کی بات کی جائے تو دین اسلام کا مطالعہ کریں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علم کے مقام کو پڑھیں بزرگان دین کو پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم والوں کا بروز محشر کیا مقام و مرتبہ ہوگا سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنے قریبی صحابہ کے علم کے بارے میں ایک حدیث جو ترمذی شریف میں ہے ارشاد فرمایا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور (دین کے احکام میں) سب سے زیادہ مضبوط حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور بہت زیادہ حیا والے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فرائض (علم وراثت) کا زیادہ علم رکھنے والے زید بن حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور قرات کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے حضرت ابی بن کعب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں اور حلال و حرام کا زیادہ علم رکھنے والے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ہر امت میں ایک امانت دار آدمی ہوتا ہے اس امت کے امانت دار آدمی حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے آج کے اس معاشرے میں لفظ " مستقبل " کا شرعی معنی سمجھنے والے لوگوں کی تعداد دین سے دوری اور علم دین کے حصول کی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے بہت کم ہے لوگ اس دنیا کی عارضی زندگی میں جتنا وقت گزارنا ہے اس وقت کے باقی آدھے حصے کو اپنا مستقبل سمجھتے ہیں اس وقت کے پہلے حصے میں وہ ہر طرح کی کوششوں سے اپنے اس مستقبل کو بقول ان کے اچھا بنانے میں گزار دیتے ہیں جبکہ شرعی اعتبار سے یہ دنیاوی زندگی تو ہماری ابتدا ہے جہاں سے ہمیں اپنے اس مستقبل کی تیاری اور اسے اچھا بنانے کی تق ودو کرنی ہے جس کی وجہ شرعی مستقبل جس کا تعلق ہمیشہ قائم رہنے والی آخرت کی زندگی سے ہے اسے اچھا بنانا مقصود ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بروز محشر اہل علم والوں کے مقام کو حجتہ الاسلام حضرت محمد امام غزالی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے قرتہ الابصار میں ایک حدیث نقل کرتے ہوئے کچھ اس طرح اجاگر کیا ہے کہ بروزِ قیامت امتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے علماء میں سے ایک عالِم لایا جائے گا تو اللہ پاک فرمائے گا:اے جبرائیل! اس کا ہاتھ پکڑو اور نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لے جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اس وقت حوض کے کنارے لوگوں کو برتنوں میں پانی پلاتے ہوں گے۔پس جبرائیل علیہ السلام اس کا ہاتھ تھام کر حضور پُرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لائیں گے۔ پس رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اٹھ کر اسے اپنے دست ِمبارک سے یعنی چلو سے پانی پلائیں گے تو لوگ عرض کریں گے:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! آپ نے ہمیں برتنوں سے پلایا اور عالِم کو اپنے چلو مبارک سے تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرمائیں گے:اس لیے کہ لوگ دنیا میں تجارت کے ساتھ مشغول رہے اور علما علم کے ساتھ مشغول رہے۔
(قرۃ الابصار اردو ترجمہ دقائق الابصار ص 185)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اہل علم والوں کے لئے بروز محشر یہ کتنا بڑا اعزاز ہوگا اس وقت والدین یہ حسرت کریں گے کہ کاش ہم بھی اپنے بچوں کو حقیقی علم سے روشناس کرواکر علم دین کے حصول میں مصروف کردیتے تو وہ بھی اس مقام و مرتبہ کے حقدار ہو جاتے میرے محترم پڑھنے والوں اگر ہم اپنی صحبت بھی کسی اہل علم والے کے ساتھ اختیار کرلیں تو ہوسکتا ہے ہماری زندگی سنور جائے کیونکہ صحبت کا زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اور ایک علم والے کی صحبت آپ کو علم سے روشناس بھی کروائے گی اور جو ہمیں دین کے بارے میں علم نہیں ان باتوں کا بھی علم ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھا کہ سرکار مدینہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :صرف ایسے عالم کے پاس بیٹھو جو تمہیں پانچ چیزوں کی طرف بلاتا ہو:1:شک سے یقین کی طرف
2 : ریا سے اخلاص کی طرف
3 : دنیاکی خواہش سے زہد کی طرف
4: تکبر سے تواضع( یعنی عاجزی ) کی طرف
5: اور دشمنی سے خیر خواہی کی طرف۔
( احیاء العلوم، 1 / 28)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ تمام باتیں ہمیں ایک اچھے اور باعمل عالم سے ہی سیکھنے کو مل سکتی ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے علم کا یہ عالم تھا کہ وہ فرماتے ہیں کہ " اگر میں چاہوں تو سورہ فاتحہ کی تفسیر سے 70 اونٹوں کو بھردوں " اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک اونٹ جتنا وزن اٹھاتا ہے تو 70 اونٹ جتنا وزن اٹھا سکتے ہیں اتنا اس تفسیر کا وزن ہوگا اس پر سیدی اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک اونٹ کتنے مَن بوجھ اٹھاتا ہے اور ہر مَن میں کتنے ہزار اجزا ہوتے؟ اس کا حساب لگایا جائے تو یہ تقریباً 25 لاکھ جلدیں بنتی ہیں۔ یہ فقط سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے تو باقی علم عظیم کی کیا گنتی ہو سکتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے اپنی ایک تحریر میں ایک وہ حدیث بھی نکل کی جس میں یہ بتایا گیا کہ جب انسان اس دنیاوی زندگی کا وقت پورا کرکے یہاں سے رخصت ہوتا ہے تو اس کا نامہ اعمال بند کردیا جاتا ہے لیکن کچھ اعمال ایسے ہیں جن کے اجروثواب کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے ان اعمال میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر وہ اہل علم میں سے تھا اور اس نے اپنا علم آگے منتقل کیا اور وہ علم اور آگے منتقل ہوتا رہتا ہے تو یہ اس کے لئے اجروثواب کا باعث بن جائے گا اور یہ عمل ایک اہل علم سے ہی کار فرما ہوسکتا کیونکہ ایک عالم دین ہو ٫ مفتی ہو ٫ حافظ قران ہو یا اس کی کسی دینی مدرسہ کے درس و تدریس سے وابستگی ہو یا ہر وہ شخص جس نے کسی کو کوئی ایسی بات سکھائی ہو جو اچھی اور اللہ رسول کے احکامات کی پیروی کرتی ہوئی نظر آتی ہو اس کے لئیے ثواب جاریہ بن جائے گا اور یہ صبح قیامت تک جاری و ساری رہے گا
عالم دین کو انبیاء کرام علیہم السلام کا نائب بھی کہا گیا ان کا دنیا میں جو منصب ہے وہ لوگوں تک اللہ کے دین کو پہنچانے کے لئے عطا کیا گیا ہے حضرت امام الہدی فقیہ ابواللیث نصر حنفی سمرقندی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ سب سے اچھا عمل اللہ کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی رکھنا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں علم دین کے ہر شعبہ میں علم حاصل کرنا چاہئے اور جس طرح علم کے حصول کے دوسرے شعبہ ہیں ان میں بھی انسان کو عبور حاصل ہونا چاہئے جتنی جہالت ہوگی اُتنا ہر شعبہ غیروں کے طریقوں پر چلنے لگے گا۔ پاکستان‘ علماء اور مدارس کا چمن ہے اللہ تعالیٰ نے ہمہیں علم اور علماء کا ملک عطا فرمایا ہے، کیسا مدارس کا چمن یہ ملک ہے، اس پر جتنا شکر کرو کم ہے، کس طرح اللہ نے بڑے بڑے علماء کرام اور مفتیانِ عظام ہمہیں دیئے ہیں، خدا نہ کرے، خدا نہ کرے! اگر ان سے اِستفادہ کا عزم نہ کیا اور ان سے تعلق قائم نہ کیا تو یہ بہت بڑی ناشکری ہوگی اور بہت بڑی نعمت کو ٹھکراؤ گے، کیونکہ دُنیا میں ایسے ایسے ممالک بھی ہیں، جہاں پورے ملک میں کوئی کلمہ سکھانے والا اور کوئی مسائل بتانے والا نہیں ہے، اللہ نے ہمہیں علماء اور مدارس کا ملک عطا فرمایا ہے اب اس سے استفادہ حاصل کرنا ہمارا فرض ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہر مؤمن مرد و عورت کے ذمہ علم کا حاصل کرنا اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح نماز کا پڑھنا فرضِ عین ہے۔ مدارس کی طرف رُخ کرو اور اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کرو ہر وہ عمل اللہ کے یہاں قبول ہوگا جو علم کے مطابق ہو۔ اتنا ایمان کا سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے کہ جو اس کو اللہ کی پہچان کرائے۔ اسی طرح اتنا علم سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے جو اس کو حرام حلال کی تمیز کرادے۔ ہاں! محدث بننا، فقیہ بننا، مفسر بننا یہ فرضِ کفایہ ہے، یہ ہر ایک کے ذمہ فرض نہیں ہے۔ علماء کی مجالس اور علماء کی صحبت سے فائدہ اُٹھاؤ، قدم قدم پر علماء سے پوچھ کر چلو۔ لیکن اس خیال میں رہنا کہ میں تو بظاہر جو کررہا ہوں ٹھیک ہی کر رہا ہوں(یہ غلط فہمی ہے) یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی عمل جہالت کے ساتھ قبول نہیں ہوگا، اور نہ جاننا اللہ تعالیٰ کے یہاں عذر نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے تو معلوم نہیں تھا، جہالت عذر نہیں ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ نے سکھانے کے لیے رسولؐ کو بھیج دیا اور ان کے بعد یہ سلسلہ چلتے چلتے علماء تک پہنچا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ الفاطر کی آیت 37 میں فرمایا کہ
اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ النَّذِيْـرُ ۖ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظَّالِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْـرٍ
ترجمعہ کنزالایمان:
اور کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی تھی جس میں سمجھ لیتا جسے سمجھنا ہوتا اور ڈر سنانے والا تمہارے پاس تشریف لایا تھا تو اب چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں علم کی فضیلت پرحضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ایک حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک روز قاضی کی عدالت میں کسی علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی ،اس دوران ایک مفلوک الحال درویش عدالت میں داخل ہوا اور مناسب جگہ پر بیٹھ گیا۔ حاضرین محفل نے اس کی ظاہری حالت سے اس کی معمولی حیثیت کا اندازہ لگایا اور اسے اس جگہ سے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی۔ وہ درویش اس رویے سے دلبر داشتہ ہوا ،مگر خاموش رہا۔ اس وقت جس علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی ،کوئی بھی اس مسئلے کا مناسب حل بتانے میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا تھا پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ سارے لوگ ایک دوسرے پر چیخنے چلانے لگے وہ درویش خاموشی سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر بلند آواز سے بولا کہ اگر تم لوگ اجازت دو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں۔ قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔اس درویش نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلے کوبیان کیا ، اس کاجواب سن کر سب حیران رہ گئے۔ حاضرین محفل کو درویش کی علمی قابلیت کااندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال درویش کوئی بہت بڑا عالم ہے۔ اس موقع پر قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کراس درویش کودی اور کہنے لگاکہ صدافسوس ! ہم آپ کے علمی مقام اور مرتبے سے آگاہ نہ ہوسکے۔ آپ اس دستار کے زیادہ حق دار ہیں۔درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کردیا اور یہ کہہ کروہاں سے چل دیا کہ میں غروروتکبر کی اس نشانی کو ہرگزاپنے سر پر نہ رکھوں گا۔ یادرکھو کہ انسان کارتبہ بہترلباس نہیں، بہتر علم سے ہوتا ہے اور کوئی شخص صرف دستار اور سر بڑا ہونے کی وجہ سے عالم نہیں بن جاتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوںحضرت شیخ سعدی ؒ اس حکایت میں علم کی فضیلت بیان کررہے ہیں اور یہ واقعہ انہی کا ہے ،وہ مفلوک الحال درویش آپ خود تھے۔ آپ نے علم کی فضیلت کے متعلق اس حکایت کو اپنی تصانیف” بوستان اور گلستان“ دونوں میں شامل کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ عالم کے گھر پیدا ہونے والا بچہ عالم ہی ہو اور ہر اچھا لباس پہننے والا سردار نہیں ہوتا۔ یہ شرف اسے حاصل ہوتا ہے جو بہترین اوصاف کاحامل ہو۔ سردار کا بیٹا سردار ہو، یہ ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں علماء اور علم کی فضیلت ایک بہت وسیع موضوع ہے مختصر الفاظوں میں اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے لیکن چند ضروری گذارشات جو کرنا مقصود تھیں وہ میں نے کرنے کی کوشش کی ہے کسی شاعر نے کہا ہے نا کہ
انداز بیان گرچہ شوق نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس علم میں سے کچھ حصہ عطا کردے جو اس نے اپنے محبوب کو عطا کیا ہے ان کے طفیل صحابہ کرام کو تابعی بزرگوں کو یعنی تمام اسلاف کو اور ہمارے اہل علم علماء کرام کو یعنی تمام اکابرین کو اور جو اس دور میں ہمارے درمیان موجود ہیں ہمیں اپنی زندگی میں ان سے صحبت اختیار کرنے اور اس پر زندگی کے آخری سانس تک قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 134 Articles with 98403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.