ظالم پر اللہ تعالی کی ڈھیل


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ظلم کرنے والا چاہے پچھلے کسی دور کا ہو یا آج کے اس دور کا جب وہ ظلم کرتا ہے تو اسے ایک عجیب سا لطف آتا ہے اور اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ انتہائی طاقتور انسان ہے جب چاہے جو چاہے کسی کے بھی ساتھ وہ کچھ بھی کرسکتا ہے کیوں کہ وہ اپنے اس انجام سے بیخبر ہوتا ہے جس کا بندوبست رب تعالی نے اس کے لئے کیا ہوا ہے خاص طور پر ہمارے آج کے ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہئے اور تاریخ اسلام کے ان بڑے بڑے طاقتور لوگوں کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہئے جس کی تفصیل قرآن میں واضح طور پر موجود ہے انہیں سوچنا چاہئے کہ فرعون کا دریائے نیل میں ڈوبنے کا کوئی پروگرام تھا نہیں لیکن اسے ڈوبنا پڑا شداد اپنی بنائی ہوئی جنت میں سینکڑوں سال عیاشیاں کرنا چاہتا تھا مگر دروازے پر پہنچ کر مر گیا نمرود کا خیال تھا کہ اسے موت چھو بھی نہیں سکتی اور پوری زندگی حکومت کرنا چاہتا تھا مگر ایک مچھر نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا یزید نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرکے ایک لمبے عرصہ کی حکومت سازی کا پلان بنایا مگر واقعہ کربلہ کے تین سال بعد ہی عبرت ناک موت کا شکار ہوگیا اسی طرح تاریخ اسلام میں ایسے کئی لوگوں کا تذکرہ ہمیں ملتا ہے جبکہ دنیا کی تاریخ اور تاریخ پاکستان میں بھی ہمیں ایسے بیشمار لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے اپنے وقت میں لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ڈالے لیکن پھر انجام تاریخ کا حصہ بن گیا ‏۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کا ہاتھ کاندھے سے کٹا ہوا تھا اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ” مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کرو‘ اور کسی پر ہرگز ظلم نہ کرو“۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا ‘میرے بھائی تیرے ساتھ کیا ہوا؟ اس شخص نے جواب دیا بھائی میرا قصہ عجیب و غریب ہے۔ دراصل میں ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیا کرتا تھا ایک دن میں نے ایک مچھیرے کو دیکھا جس نے کافی بڑی مچھلی پکڑ رکھی تھی۔ مچھلی مجھے پسند آئی۔ میں اس کے پاس گیا اور کہا مجھے یہ مچھلی دے دو‘ اس نے جواب دیا میں یہ مچھلی تمہیں نہیں دوں گا کیونکہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت سے مجھے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ میں نے اسے مارا پیٹا اور اس سے زبردستی مچھلی چھین لی اور اپنی راہ لی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جس وقت میں مچھلی کو اٹھائے جا رہا تھا‘ اچانک مچھلی نے میرے انگوٹھے پر زور سے کاٹ لیا۔ میں مچھلی لے کر گھر آیا اور اسے ایک طرف رکھ دیا۔ اب میرے انگوٹھے میں ٹیس اور درد اٹھا اور اتنی تکلیف ہونے لگی کہ اس کی شدت سے میری نیند اڑ گئی۔ میرا پورا ہاتھ سوجھ گیا جب صبح ہوئی تو میں طبیب کے پاس آیا اور اس سے درد کی شکایت کی۔ طبیب نے کہا یہ انگوٹھا سڑنا شروع ہو گیا ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اس کو کٹوا دو‘ ورنہ پورا ہاتھ سڑ جائے گا۔ میں نے انگوٹھا کٹوا دیا۔ لیکن اس کے بعد ہاتھ سڑنا شروع ہوا اور درد کی شدت سے میں سخت بے چین ہو گیا اور سو نہ سکا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ہتھیلی کٹوا دو میں نے ایسا ہی کیا‘ اب درد بڑھ کر کہنی تک پہنچ گیا۔ میرا چین اور نیند سب اڑ گئی اور میں درد کی شدت سے رونے اور فریاد کرنے لگا۔ ایک شخص نے مشورہ دیا کہ کہنی سے ہاتھ الگ کر دو۔ میں نے ایسا ہی کیا لیکن اب درد مونڈھے تک پہنچ گیا اور سرانڈ وہاں تک پہنچ گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اب تو پورا بازو کٹوا دینا ہو گا ورنہ تکلیف پورے بدن میں پھیل جائے گی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ اب لوگ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آخر یہ تکلیف تمہیں کیوں شروع ہوئی۔ میں نے مچھلی کا قصہ انہیں سنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم ابتداء میں مچھلی والے کے پاس جا کر اس سے معافی مانگتے‘ اسے راضی کر لیتے اور کسی صورت میں مچھلی کو اپنے لئے حلال کر لیتے تو تمہارا ہاتھ یوں کاٹا نہ جاتا۔ اس لئے ابھی جاﺅ اور اس کو ڈھونڈ کر اس سے معافی مانگو ورنہ تکلیف پورے بدن میں پھیل جائے گی میں اٹھا اور مچھلی والے کو پورے شہر میں ڈھونڈنے لگا‘ آخر ایک جگہ اس کو پالیا۔ میں اس کے پیروں پر گر پڑا اور رو رو کر کہا کہنے لگا تمہیں اللہ کا واسطہ مجھے معاف کر دو۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو؟میں نے بتایا میں وہ شخص ہوں جس نے تم سے مچھلی چھین لی تھی۔ پھر میں نے اس سے اپنی کہانی بیان کی اور اسے اپنا ہاتھ دکھایا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ دیکھ کر رو پڑا اور کہا میرے بھائی میں نے اس مچھلی کو تمہارے لئے حلال کیا‘ کیونکہ تمہارا حشر میں نے دیکھ لیا۔ میں نے اس سے کہا میں تمہیں خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب میں نے تمہاری مچھلی چھینی تو تم نے مجھے کوئی بد دعا دی تھی؟ اس شخص نے کہا ہاں میں نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ اے اللہ! یہ اپنی قوت اور زور کے گھمنڈ میں مجھ پر غالب آیا اور تو نے جو رزق دیا اس نے مجھ سے چھین لیا اور مجھ پر ظلم کیا اس لئے تو اس پر زور کا کرشمہ دکھا۔ میرے مالک اللہ نے اپنا زور تمہیں دکھا دیا اب میں اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ نہ کسی پر ظلم کروں گا اور نہ ہی کسی ظالم کی مدد کروں گا۔ انشاءاللہ جب تک زندہ رہوں گا اپنے وعدے پر قائم رہوں گا۔
منقول (علامہ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الزواجر سے اقتباس )۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح البخاری کی ایک حدیث جسے حضرت ابو موسیٰ اشعری علیہ رحمہ روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ تعالی ظالم کو دنیا میں چند دنوں کی مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں "
(صحیح البخاری 4686)
بالکل اسی طرح قرآن مجید کی سورہ الابراھیم کی آیت نمبر 42 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُ۔
ترجمعہ کنزالایمان:
اور ہرگزاللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے انہیں ڈھیل نہیں دے رہا ہے مگر ایسے دن کے لیے جس میں آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جائیں گی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس آیت مبارکہ میں ہر ظالم کے لیئے وعید اور ہر مظلوم کے لئے تسلی ہے اور ایک مشہور کہاوت ہے کہ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں کی تشریح بھی ہے اس آیت مبارکہ کہ تفسیر میں ہمارے علماء لکھتے ہیں کہ ظالموں کے اس ظلم سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اللہ تعالیٰ انہیں عذاب میں نہیں ڈالے گا یا انہیں اپنے کیئے کی سزا نہیں ملے گی بلکہ وہ تو انہیں ڈھیل دے رہا ہوتا ہے اس دن کے لیئے جب اس کی اپنے اوپر ہونے والے عذاب کو دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت ٫ منشاء اور مرضی کے مطابق چاہے تو کسی ظالم کو سزا دنیا میں ہی اس طرح دیتا ہے کہ دوسرے اس سے سبق حاصل کریں اب میں جو واقعہ آپ کو بتانے جارہا ہوں اسے پڑھ کر آپ کو اس بات کا بخوبی اندازا ہو جائے گا میں کم وبیش اٹھارا سال سبزی منڈی میں کمیشن ایجنٹ کا کام کرتا رہا ہوں اور سبزی منڈی میں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں کا کام اور لین دین ہوتا ہے میرے ساتھ کئی لوگ اس کام میں مصروف عمل تھے ایک صاحب تھے جو بڑے سیٹھ کہلاتے تھے جن کو اپنے کام دولت اور روپیہ پیسہ پر بڑا گھمنڈ تھا اور وہ اپنے مزدوروں اور چھوٹے گاہکوں کی طرف بڑی حقارت سے دیکھا کرتے تھے پڑوس کے گائوں سے ایک شخص روزانہ اپنی بڑی گاڑی یعنی شہزور لیکر آتا اور اس میں وہاں پر موجود بیوپاریوں کا مال لے جاتا تھا اور وہاں سے پیمنٹ لاکر بڑے سیٹھ کے حوالے کردیتا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ وہ شخص اپنے گاہک سے پیمنٹ لانا بھول گیا تو بڑے سیٹھ نے اسے بہت ذلیل کیا اور تنبیہ کی کہ کل تک اگر پیمنٹ نہ آئی تو تمہاری خیریت نہیں اسی دن شام کو اس شہزور کے ڈرائیور کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ بستر پر آگیا اس کا علاج ہوا اور چند دنوں بعد وہ ٹھیک ہوکر واپس اپنے کام پر لگ گیا جب بڑے سیٹھ نے اسے دیکھا تو کہنے لگا کہاں مر گیا تھا تجھے کہا تھا کہ پیمنٹ لیکر آنا تو غائب ہوگیا اس نے ساری کہانی سنائی لیکن وہ سیٹھ ماننے کو تیار نہ ہوا اور اپنے مزدوروں کو کہا کہ اسے باتھ روم میں بند کردو لہذہ اسے باتھ روم میں بند کردیا گیا تھا ایک بوڑھا اور بیمار شخص چختا رہا چلاتا رہا لیکن کسی کو رحم نہ آیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ سارا معاملہ صبح دس بجے ہوا اور اس وقت دن کا ایک بج رہا تھا سیٹھ بھی جا چکا تھا اور مزدور بھی یہاں وہاں ہوگئے لیکن وہ شخص باتھ روم ہی میں بند تھا یکایک ایک اور کمیشن ایجنٹ کا وہاں سے گزر ہوا تو اس نے دروازہ کھولا اور جیسے ہی دروازہ کھولا وہ ڈرائیور بیہوش ہوکر گر پڑا اس کمیشن ایجنٹ نے پوچھا کیا معاملہ ہے تو سیٹھ کے مزدوروں نے پورا قصہ سنایا اور اسی وقت اس ڈرائیور کو ہسپتال پہنچایا گیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ کو ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک دن سیٹھ کام سے فارغ ہوکر بیٹھا اور پیشاب کے خیال سے باتھروم چلاگیا مزدور اپنے اپنے کام میں مصروف تھے جب سیٹھ کو گئے ہوئے کافی وقت ہوگیا تو لوگوں نے سوچا کہ سیٹھ کو باتھ روم گئے ہوئے کافی وقت ہوگیا اب تک تو باہر آجانا چاہئے تھا لیکن کیوں باہر نہیں آئے کچھ دیر مزید انتظار کے بعد لوگوں نے مجبور ہوکر دروازا توڑا تو دیکھا کہ سیٹھ کی روح پرواز کر چکی تھی اور وہ اسی باتھ روم میں موت کے منہ میں چلاگیا جہاں کچھ دن پہلے اس نے ایک غریب اور بیمار شخص کو یہاں قید کرکے رکھ تھا بیشک وہ رب سب کچھ جانتا ہے اور دیکھ رہا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب بھی آپ دیکھیں کہ کوئی شخص کسی پر ظلم کررہا ہے اور وہ ناجائز ہے تو اس کا ساتھ دینے کی کوشش نہ کریں کیونکہ جرم کرنے والے سے زیادہ گناہگار وہ ہوتا ہے جو اس گناہ کے کرنے والے کی مدد کرنے میں شامل ہوگا اور ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں بڑی سخت وعید آئی ہے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةًۚ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
ترجمعہ کنز العرفان:
اور اس فتنے سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں خاص ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گا اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس آیت مبارکہ میں صاف طور کہا گیا کہ ظلم کا عذاب صرف اس پر نہیں ہوگا جو ظلم کرتا چلا آیا ہے بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ظالموں کا ساتھ دیا یا ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہے اور بیشک اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا سخت ہے اسی طرح بیہقی کی ایک حدیث کے مطابق سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ظلم کو تقویت دینے کی غرض سے ظالم کا ساتھ دے یہ جانتے ہوئے کہ وہ ظالم ہے تو ایسا شخص دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے یعنی اہل ایمان مسلمانوں کا نہ ہی کام ہے اور نہ ہی یہ کردار۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ڈھیل اس کی پکڑ میں تبدیل ہوجاتی ہے پھر وہ اس دنیا میں ہی اس کو دوسروں کے لیئے عبرت کا نشان بنادیتا ہے تاریخ اسلام ہو یا دنیا کی تاریخ ہمیں بیشمار ایسے لوگوں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنے سے کمتر لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ڈالے لیکن ان کے انجام کو رب تعالی نے ہمارے لیئے عبرت کا نشان بنادیا ہے بس یاد رکھیئے نہ کسی پر ظلم کریں نہ کرنے دیں اور نہ ہی کسی ظالم کا ساتھ دیں آخر میں اس شعر پر یہ تحریرختم کرنے کی اجازت چاہوں گا کسی نے خوب کہا کہ
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 133 Articles with 95401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.