گواہی وہ بھی دو کبوتروں کی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کی میرا اداب
ایک عدالت وہ ہوتی ہے جہاں قانون کے رکھوالوں سے کسی بیگناہ کے حق میں انصاف نہیں ہوتا اور کئی مجرموں کو صرف اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی گواہی دینے والا یا تو ہوتا نہیں ہے یا انہیں گواہی سے پہلے ہی راستے سے ہٹادیا جاتا ہے اور پھر یکطرفہ فیصلہ کرکےاس کیس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے بند کردیا جاتا ہے اور بیگناہ لوگ صبر کرکے چپ ہو جاتے ہیں لیکن ایک عدالت اللہ رب العزت کے یہاں بھی ہونی ہے جہاں کسی کی سفارش ,بددیانتی اور نا انصافی کا وار کامیاب نہیں ہونا وہاں انسانوں کی گواہی کے علاوہ درودیوار ، درخت ، پہاڑ ، دریا و سمندر ٫ ہمارے جسم کا ہر حصہ اور ہر وہ شہ جو یہاں خاموش ہے وہاں گواہی دے گی کہ کس نے کیا جرم کیا ہے اور ان کی گواہی کی بدولت اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ سنائے گا اور بیشک اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل اور حق پر ہوتا ہے آج کا واقعہ ایک ایسے ہی گواہی سے تعلق رکھتا ہے اس تجسس اور سسپنس سے بھرپور واقعہ کو پڑھ کر آپ کو یقین ہو جائے گا کہ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ اس وقت کی بات ہے جب شام اور عراق کی حدود علیحدہ نہیں ہوتی تھی ایک ساتھ ہوتی تھی اور موسل عراق کا ایک مشہور شہر تھا یہاں سے ایک تاجر اپنے بعض مویشیوں کے ساتھ گائے بکروں کے ساتھ جو اس طرح کے جانور ہوتے ہیں اس کے ساتھ حلب کی طرف روانہ ہوا کے حلب دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شامل ہے اور اج کل یہ شام کا شہر ہے تاجر نے اپنا قیام ایک مسافر خانے میں کیا مسافر خانہ ایسا تھا کہ یہاں لوگ مختصر قیام کرتے کھانے پینے کی سہولیات ہوتی لوگ لمبے سفر کے دوران یہاں رکتے تھے کچھ دن یا کچھ وقت ارام کرتے پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے اس مسافر خانے میں جہاں وہ تاجر رکا ہوا تھا ان دنوں مویشیوں کا ایک میلا سا لگا ہوا تھا لہذہ اس کو اپنے مویشی بیچنے میں دیر نہ لگی اس نے جلدی جلدی اپنے مویشی بیچے اور موسل کی طرف جانے لگا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک ڈاکو مسلسل اس کا پیچھا کررہا تھا اور اس کی نگاہ اس پر جمی ہوئی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس تاجر کے پاس اچھی خاصی رقم ہے لہذہ وہ اسے لوٹنے کی غرض سے موقع کی تلاش میں تھا کہ کب اسے موقع ملے اور وہ اپنا ہاتھ صاف کرے بالآخر وہ تاجر چلتے چلتے ایک ویران جنگل میں جا پہنچا وہ بہت تھک چکا تھا اس لئے وہ تاجر کچھ دیر سستانے کی غرض سے ایک گھنے درخت کے سائے میں بیٹھ گیا اور آرام کرنے لگا بس یہ ہی وہ موقع تھا جب ڈاکو اس تاجر پر حملہ کرسکتا تھا اس ڈاکو نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس تاجر پر دھاوا بول دیا اور اس کی گردن پر اپنا خنجر رکھ کر کہا کہ تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میرے حوالے کردے اس تاجر نے بیبسی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا اور شور مچانا شروع کردیا لیکن اس ویرانے میں اس کی آواز کون سنتا کون اس کی مدد کے لئے آتا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب اس نے محسوس کیا کہ یہاں کوئی اس کی مدد کے لئے نہیں آئے گا تو مجبور ہوکر اس نے اپنا سارا مال اس ڈاکو کے حوالے کردیا ڈاکو کو مال تو مل گیا لیکن اس نے سوچا کہ اگر میں نے اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو یہ میرے لئے مصیبت کھڑی کر سکتا ہے لہذہ اسے یہیں مار کر چلا جا تا ہوں کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا تاجر نے کہا کہ تمہیں میں نے اپنا سارا مال دے دیا ہے لہذہ مجھے اب جانے دو میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو میری راہ دیکھ رہے ہوں گے لیکن ڈاکو کے سر پر خون سوار تھا اس نے تاجر کی ایک نہ سنی اور حملہ کردیا لیکن وہ تاجر اپنے آپ کو بچانے کے لئے کبھی ایک طرف بھاگتا کبھی دوسری طرف اور چیختا بچائو بچائو لیکن وہاں کوئی نہیں تھا جو اسے اس ڈاکو کے چنگل سے نکال سکے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اچانک اس کی نظر درخت پر بیٹھے ہوئے دو کبوتروں پر پڑی ڈاکو اس پر حملہ اور تھا تب اس نے ان کبوتروں کی طرف مخاطب ہوکر کہا اے کبوتروں گواہ رہنا یہ بات اس نے تین دفعہ کہی اور اس کے بعد ڈاکو نے ایک بھرپور حملہ کرکے اسے قتل کردیا اور اسے مارنے میں کامیاب ہوگیا اس تاجر کو قتل کرنے کے بعد اس کے کان میں اس کی آواز گونج رہی تھی کہ اے کبوتروں گواہ رہنا اور اس بات کو طنزیہ انداز میں سوچتا ہوا وہاں سے چلا گیا وہاں اس تاجر کے گھر نہ پہنچنے پر اس کے بیوی بچے اور دوسرے رشتہ دار پریشان ہوگئے کچھ انتظار کے بعد اس کا بڑا بیٹا حلب پہنچا وہاں کے لوگوں کو اس تاجر کے ساتھ ہونے والے سارے واقعہ کا علم تھا لہذہ انہوں نے اس تاجر کے بیٹے سے کہا کہ وہ تاجر فلاں دن یہاں آیا تھا فلاں مسافر خانہ میں وہ اتنے دن رکا رہا فلاں لوگوں کو اپنے مویشی بیچ کر وہ جنگل کے راستے گھر کی طرف جارہا تھا کہ ڈاکو نے حملہ کرکے اپنے خنجر سے اسے قتل کردیا اور اس کی ساری رقم لیکر فرار ہوگیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس تاجر کا بیٹا سب سے پہلے شہر کے حاکم کے پاس پہنچا پھر قاضی کے پاس گیا اور پھر اپنے والد کے دوستوں سے ملا تاکہ اسے اپنے والد کے قاتل کا کہیں سے کوئی سوراخ مل سکے لیکن اس کی ساری محنت رائیگاہ گئی اور اسے کچھ پتہ نہ چل سکا بالاخر تھک ہار وہ واپس موسل آگیا کچھ دنوں کے بعد تاجر کے بیٹے نے یہاں کے حاکم سے مدد کی درخواست کی اس نے اسی وقت حلب کے حاکم کو خط لکھا اور یوں قاتل کی تلاش کا سلسلہ دوبارا شروع ہوگیا لیکن کئی کوششوں کے بعد بھی اس قاتل کا کوئی پتہ نہ چل سکا تھک ہار کر اس تاجر کے بیوی بچوں نے بھی صبر کرلیا اور اس کیس کی فضائل کو بند کردیا گیا بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے آج کے معاشرے میں ہوتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وقت گزرتا گیا دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں گزر گئے کئی حاکم آئے چلے گئے کئی قاضی بدل دئیے گئے اور اس تاجر کے گھر والے بھی اس واقعہ کو اب لگ بھگ بھول چکے تھے لیکن ایک شخص اب بھی ایسا تھا جو اس واقعہ کو نہیں بھولا تھا اور یہ وہ شخص تھا جس نے اس تاجر کو قتل کیا تھا یعنی قاتل وہ جب بھی کہیں کسی اونچی جگہ پر یا کسی درخت پر دو کبوتروں کو ایک ساتھ بیٹھا ہوا دیکھتا تو اسے تاجر کا وہ جملہ یاد آتا کہ اے کبوتروں گواہ رہنا سے کبوتروں گواہ رہنا بدلتے وقت اور حالات کے پیش نظر وہ ڈاکو اب ایک امیر ترین اور اثرورسوخ والا شخص بن چکا تھا لہذہ اسے شہر کے ایک معزز نے کھانے کی دعوت پر بلایا جہاں شہر کے بڑے بڑے اور معزز لوگوں کی شرکت بھی تھی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب تمام لوگوں کو دسترخوان پر بیٹھنے کے لئے کہا گیا تو اس وقت دسترخوان پر طرح طرح کے مزیدار اور لذیذ کھانے رکھے ہوئے تھے کہ اس ڈاکو نے ایک بہت بڑے تھال کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور جیسے ہی اس نے اس تھال کا ڈھکن ہٹایا تو اس نے دیکھا کہ وہاں دو عدد کبوتر رکھے ہوئے ہیں ویسے آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کبوتر ایک حلال جانور ہے اور اس کا گوشت انتہائی لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں کے علاج کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس ڈاکو نے جب دیکھا تو اسے وہ منظر یاد آگیا جب تاجر خون میں لت پت درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور اوپر بیٹھے دو کبوتروں کو آواز دے رہا تھا کہ اے کبوتروں گواہ رہنا اس واقعہ کے ذہن میں گردش کرتے ہی وہ یہ بھول گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور ایک زوردار قہقہہ لگانے لگا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لوگوں نے اس سے پوچھا کہ آخر کیا ماجرا ہے اسے کبوتروں کا دیکھ کر کیا یاد آگیا تو وہ غیر ارادی طور پر اس واقعہ کو لوگوں کے سامنے مذاق بناتے ہوئے اور ہنستے ہوئے بیان کرنے لگا اسے اس وقت یہ علم نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی دعوت میں موجود ہے جہاں معززین شہر کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن اس نے ایک ایک لفظ اس واقعہ کے متعلق وہاں بیان کردیا اس کے انداز بیان میں کشش کی وجہ سے لوگ بھی بغور اس سے یہ بات سننے لگے جب وہ پوری بات کرچکا تو یکا یک خاموش ہوگیا پھر ایک ٹھنڈی آہ لی اور تھال میں دو کبوتروں کو دیکھ کر وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے حواس کھو کر جس دنیا میں پہنچ چکا تھا وہاں سے وہ واپس اپنی اس وقت کی دنیا میں لوٹ چکا تھا اور اسے اندازا ہوگیا کہ وہ دعوت میں موجود ہے لیکن اسے یہ احساس ہوا کہ یہ اس نے کیا کردیا ایک پرانا واقعہ جسے لگ بھگ لوگ بھول چکے تھے جس کی فائل بھی بند ہو چکی تھی لیکن اس نے ان کبوتروں کو دیکھ کر اس واقعہ کی یاد لوگوں کے ذہنوں میں پھر تازی کروادی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسے یہ احساس تو ہوا لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا پورے شہر میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی ہر ایک زبان پر یہ واقعہ دوبارا آگیا یہاں تک کے اس شہر کے موجودہ حاکم تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی اس نے اسی وقت اس ڈاکو کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور اس کیس کو دوبارا کھلوانے کے لئے آرڈر جاری کردیا دعوت میں موجود لوگوں کو اکٹھا کرکے ان سے گواہی لی گئی اور سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ اس نے خود اپنی زباں سے اس واقع کو ہمارے سامنے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے شہر کے حاکم نے شہر کے قاضی نے اور پولیس کے چیف جو اس دعوت میں موجود تھا اس نے بھی گواہی دی کہ جتنی تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ اس ڈاکو نے بیان کیا ہے یہ وہ شخص ہی کرسکتا ہے جس نے یا تو واقعہ ہوتے ہوئے دیکھا ہو یا خود اس واقعہ میں ملوث ہو ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب اس ڈاکو کے پاس اپنے جرم کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا لہذہ اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور تمام گواہوں کی گواہی اور اس کے اعتراف جرم کے سبب اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی انگلی صبح لوگوں کی بہت بڑی تعداد پھانسی کے اس منظر کو دیکھنے کے لئے جمع تھی جب اس ڈاکو کے گلے میں رسی ڈالی گئی تو اس وقت اس کی زباں پر یہ الفاظ جاری تھے کہ اے کبوتروں گواہ رہنا اے کبوتروں گواہ رہنا اور یوں رسی کھینچ لی گئی اور وہاں پر موجود لوگوں نے ایک مجرم کو کیفر کردار تک پہنچتے ہوئے دیکھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ وہ معاملہ جسے حل کرنے کے لئے وقت کے حاکم وقت کا قاضی پولیس کے بڑے بڑے عہدیدار سب نے کوشش کی لیکن کوئی کچھ نہ کرسکا اور وہ لوگ عاجز ہوکر کیس کو بند کرکے اپنی دنیا میں مگن ہوگئے لیکن چونکہ یہ معاملہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بھی موجود تھا اور جو معاملہ دنیا کے لوگوں سے حل نہ ہوسکا اللہ رب العزت نے اس بیبس تاجر کے قتل کو ان دو کبوتروں کی وجہ سے ایک عرصہ کے بعد کھلوا کر مجرم کو سزا دلوائی جن کو مرنے سے پہلے تاجر نے کہا تھا کہ " اے کبوتروں گواہ رہنا اے کبوتروں گواہ رہنا " گویا اس ڈاکو کو انہی دو کبوتروں کی گواہی نے پھانسی کے پھندے تک پہنچایا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لئیے کہا جاتا ہے کہ دنیاوی عارضی زندگی میں کئے معاملات ایسے آجاتے ہیں جہاں ہمارے بات ہمارے حق میں نہیں ہوتی تو پھر ہمیں اس کے فیصلے کو باری تعالی کے سپرد کردینا چاہئے کہ اس کے یہاں ناانصافی اور ظلم جیسے کوئی قانون نہیں ہے اس ہی لئیے کہتے ہیں کہ کوئی گناہ کرتے وقت یہ سوچ لیجئے کہ کہ وہاں کوئی بھی نہیں ہے تو کیا ہوا اگر آپ کے ارد گرد کوئی دیوار کوئی پتھر یا کوئی زمین کا حصہ بھی موجود ہے تو بروز محشر وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہ بن کر کھڑے ہوں گے بس کسی بھی گناہ سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے رہیں اللہ رب العزت حق اور سچ کا ہمیشہ ساتھ دیتا ہے آخری میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تاریخ اسلام میں موجود ایسے واقعات کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے ان واقعات سے حاصل ہونے والے اسباق سے ہمیں بھی سیکھنے کی توفیق عطا کرے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 133 Articles with 94988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.