اس وقت چین کے کاروباری ادارے تیزی سے عالمی میدان میں
قدم رکھ رہے ہیں، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) فریم ورک کے تحت
تعاون بڑھانے کے چین کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔چین کی جانب سے 2013 میں
تجویز کردہ بی آر آئی نے گزشتہ برسوں کے دوران 150 سے زائد ممالک میں
ہزاروں منصوبے شروع کیے ہیں، جس سے اعلیٰ سطحی کھلے پن اور تعاون کے ذریعے
بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی کے بوجھ تلے دبی دنیا میں اعتماد اور توانائی پیدا
ہوئی ہے۔اسی تناظر میں ابھی حال ہی میں بیجنگ میں منعقد ہونے والے 14 ویں
چائنا اوورسیز انویسٹمنٹ فیئر میں تقریباً 100 ممالک اور خطوں کے 2200 سے
زائد کاروباری نمائندوں نے مختلف سرگرمیوں کے ذریعے اقتصادی اور تجارتی
مواقع تلاش کرنے کے لیے جامع تبادلہ خیال اور مشاورت کی۔چائنا اوورسیز
انویسٹمنٹ فیئر کی سالانہ تقریب کا مقصد دو طرفہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے
اور بیلٹ اینڈ روڈ پارٹنر ممالک میں گہرے تعاون کو فروغ دینے کے لئے ایک
پلیٹ فارم کے طور پر کام کرنا ہے ۔ رواں سال کے میلے کا موضوع "عالمی ترقی
کے لئے نئے مواقع ، بیرون ملک سرمایہ کاری کے لئے نئے بلیو پرنٹ" رہا۔
وسیع تناظر میں چین کی مرکزی حکومت کے تحت ریاستی ملکیتی اداروں نے بی آر
آئی میں شریک ممالک اور خطوں کی ترقی ، خاص طور پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر
، نقل و حمل کے رابطے اور وسائل کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔یہ
ادارے چین کی بیرون ملک نمائندگی اور مثبت ساکھ کو اجاگر کرنے میں پیش پیش
ہیں۔چائنا انرجی انجینئرنگ انٹرنیشنل کنسٹرکشن کی بات کی جائے تو کمپنی نے
حالیہ برسوں میں قازقستان میں اپنی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کیا ہے ،
توانائی کی منتقلی اور پائیدار سبز ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نمایاں
ثمرات سامنے لائے ہیں۔قازقستان میں کمپنی کی جانب سے شروع کیے گئے سیمنٹ
پلانٹ کے منصوبے نے درآمد شدہ خصوصی سیمنٹ پر ملک کے تاریخی انحصار کو
کامیابی سے ختم کر دیا ہے، جسے قازقستان کی حکومت کی جانب سے تسلیم کیا گیا
ہے۔مستقبل کو دیکھتے ہوئے ، چین کی یہ بڑی توانائی انٹرپرائز وسطی ایشیائی
ممالک میں سڑکوں ، ریلوے ، پانی کے انتظام اور گرین بلڈنگ مٹیریل سمیت دیگر
شعبوں میں تعاون کے مواقع کو فعال طور پر آگے بڑھانے کے لئے تیار ہے ، جس
کا مقصد ان ممالک کو فائدہ پہنچانے کے لئے چین کی طاقت اور صلاحیتوں سے
بہتر فائدہ اٹھانا ہے۔
حالیہ برسوں میں، چینی نجی کمپنیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے مواقع کی تلاش
میں بیرون ملک جانے کا انتخاب کیا ہے، کیونکہ گھریلو مسابقت میں اضافہ ہوا
ہے.اسی دوران چین کی نئی توانائی کی گاڑیوں (این ای وی) کی صنعت نے نمایاں
توجہ حاصل کی ہے کیونکہ یہ نہ صرف مقامی طور پر پھل پھول رہی ہے بلکہ بین
الاقوامی مارکیٹ میں بھی ایک اہم کھلاڑی بن چکی ہے.چین کے گوانگ جو
آٹوموبائل گروپ (جی اے سی) کے تحت کام کرنے والا الیکٹرک وہیکل برانڈ "ایون"
بھی چینی نیو انرجی کمپنیوں کی ایک اہم مثال ہے جو فعال طور پر غیر ملکی
مارکیٹوں میں مواقع تلاش کر رہی ہیں۔کمپنی حکام کا کہنا ہے کہ بیرون ملک
توسیع کی حکمت عملی کا خلاصہ صرف سامان اور ٹیکنالوجی برآمد کرنے کے بارے
میں نہیں ہے، بلکہ یہ مقامی سپلائی چین اور صنعتی نیٹ ورکس کو بہتر بنانے
سے جڑا ہوا ہے۔یہاں ، بی آر آئی بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو
آسان بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے، اور یہ بیلٹ اینڈ روڈ پارٹنر ممالک
میں منظم طریقے سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دے رہا ہے، جس نے چینی
کمپنیوں کے لئے بیرون ملک کاروبار کرنے کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا
ہے.مارچ میں ، کمپنی نے باضابطہ طور پر نیپالی مارکیٹ میں اپنے فلیگ شپ
ماڈل ، اے آئی او این وائی کو متعارف کرایا ، جو ایک اہم سنگ میل ہے۔ مزید
برآں ، آٹو کمپنی نے انڈونیشیا میں الیکٹرک وہیکل اسمبلنگ پلانٹ قائم کرنے
کے اپنے ارادے کا اعلان بھی کیا ہے ، جس سے جنوب مشرقی ایشیائی مارکیٹ میں
اُس کی موجودگی میں مزید اضافہ ہوگا۔عالمی سطح پر قدم جمانے کی کوششوں کی
بدولت کمپنی نے عالمی مارکیٹ شیئر میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے اور صرف بی
وائی ڈی اور ٹیسلا سے پیچھے ہے۔
چینی وزارت تجارت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بی آر آئی میں شریک
ممالک میں چین کی غیر مالیاتی بیرون ملک براہ راست سرمایہ کاری جنوری سے
اپریل کی مدت میں سال بہ سال 20.4 فیصد بڑھ کر مجموعی طور پر 77.77 ارب
یوآن (تقریباً 10.94 ارب امریکی ڈالر) ہو چکی ہے، جو اس بات کی نشاندہی
کرتی ہے کہ بی آر آئی فریم ورک کے تحت تعاون بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم
بی آر آئی ممالک چین کی سرمایہ کاری کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
کیونکہ اس سرمایہ کاری نے متعلقہ ممالک کی ترقی کو نمایاں طور پر تقویت دی
ہے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کو بھی تیزی سے ترقی ملی ہے ۔
چینی حکام کے نزدیک بی آر آئی ایک ایسی کمیونٹی کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے
جس کا مقصد بنی نوع انسان کا ہم نصیب سماج ہے ، یہ انیشی ایٹو نہ صرف
مصنوعات اور ٹیکنالوجیز برآمد کر رہا ہے بلکہ شراکت دار ممالک کو اپنے
صنعتی نظام قائم کرنے اور معاشی بحالی کے حصول میں بھی مدد کی فراہمی جاری
رکھے ہوئے ہے۔دوسری جانب یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ بیرون ملک جانے
والے چینی کاروباری ادارے عالمی ماحولیاتی، سماجی اور گورننس معیارات پر
عمل کریں گے جس سے بین الاقوامی سطح پر چین کے مثبت تشخص کو تقویت ملے گی۔
|