شیخ سعدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ

"مصلح الدين شیخ سعدی شیرازی " فارسی زبان کے معروف شاعر اور ادیب تھے آج سے تقريباً 800 برس پہلے ايران كے شہر شیراز ميں پيدا ہوئے آپ ايک بہت بڑے معلم مانے جاتے ہيں- آپ كى دو كتابيں گلستانِ سعدی اور بوستانِ سعدی بہت مشہور ہيں- پہلى كتاب گلستان نثر ميں ہے جبكہ دوسرى كتاب بوستان نظم ميں ہے آپ کی کئی کتابوں کی کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے جو ہمارے لیئے اور خاص طور پر ہماری نوجوان نسل کے لیئے بیش بہا قیمتی سرمایہ ہیں آپ کو سیرو سیاحت کا بڑا شوق تھا اس لیئے تعلیم سے فارغ ہوکر آپ سیر وتفریح کی غرض سے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، فلسطین اور شمالی افریقہ کے علاقوں کی سیر کی آپ نے اس دوران چودہ حج کیئے اور کئی جنگوں میں بھی شرکت کی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس لمبی سیاحت کے بعد آپ دوبارہ شیراز تشریف لے آئے اور پھر وہیں پر باقی زندگی ایک خانقاہ میں گزار دی آپ نے اپنی سیاحت کے تجربات کا ذکر اپنی حکایات میں کئی جگہوں پر کیا اور آپ کے دلچسپ اور معنی خیز خوبصورت الفاظ اقوال کی شکل میں ہمیں بہت سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیتے ہیں آپ نے سو برس كى عمر ميں ايران کے شہر شیراز ميں انتقال فرمايا اور آپ کا مقبرہ بھی شیراز میں ہی ہے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی تحریر میں شیخ سعدی علیہ الرحمہ کی کچھ حکایات اور کچھ اچھی نصیحت بھری باتوں کو آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کروں گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ان مقبول بندوں کی باتوں کو پڑھنے اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے مجھے سب لکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شیخ سعدی علیہ الرحمہ ایک حکایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دو فقیر تھے جو خراسان کے رہنے والے تھے جس میں ایک بہت بوڑھا اور ضعیف تھا جو ایک دن کھانا کھاتا تو پھر دوسرے دن نہ کھاتا اور تیسرے دن کھاتا جبکہ دوسرا ایک کڑیل نوجوان تھا جو دن میں تین وقت کھانا کھاتا کیونکہ اسے بھوک لگتی بھی بہت تھی اور وہ اس کو برداشت بھی نہیں کرسکتا تھا ایک دن وہ اتفاق سے دونوں کسی جاسوسی کیس میں پکڑے گئے اور انہیں فیصلے کے مطابق ایک کال کوٹھری میں بند کرکے دروازے کو اینٹوں سے بند کردیا گیا اور کیس چلایا گیا دو ہفتوں بعد معلوم ہوا کہ وہ بیگناہ ہیں لہذہ دروازے کو توڑکر انہیں باہر نکالنے کا حکم ہوا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دروازہ توڑکر جب دیکھا تو لوگوں کو حیرانگی ہوئی کہ جو موٹا کڑیل نوجوان تھا وہ مرا ہوا تھا جبکہ بوڑھا ابھی تک اپنی زندگی کی سانسیں لے رہا تھا اسی وقت وہاں سے ایک حکیم کا گزر ہوا اس نے کہا دیکھو زیادہ کھانے کا عادی بھوک برداشت نہ کرسکا اور وہ مر گیا حالانکہ وہ جوان تھا جبکہ بوڑھا بھوکا رہنے کا عادی تھا لہذہ اس کی اس عادت نے اس سے صبر کروایا اور وہ ژندہ سلامت ہے اور زندگی کی سانسیں لے رہا ہے نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا تھا کہ
بے زری فاقہ کشی مفلسی اور بے سامانی
ہم فقیروں کے بھی ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کسی نے صحیح کہا ہے کہ کم کھانا کم سونا اور کم بولنا زندگی کو صحت مند توانا اور ہشاش بشاش رکھنے کے لیئے بہت ضروری ہے شیخ سعدی کی ایک اور بہت ہی دلچسپ حکایت پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جو ایک نوجوان پہلوان کے متعلق ہے ایک نوجوان پہلوان تھا جو گردش زمانہ سے پریشان تھا خرچ زیادہ اور کم آمدنی نے اس کو پاگل کردیا تھا وہ مفلسی اور قلاشی کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے باپ کے پاس جا پہنچا شکایت زمانہ کرتے ہوئے سفر پر جانے کی اجازت مانگی تاکہ اپنے قوت بازو سے کام لیکر گوہر مقصود حاصل کرسکے یعنی اپنی تنگدستی کو آسودہ حال میں بدل سکے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں باپ نے کہا کہ بیٹا یہ فضول خیال دماغ سے نکال دو اور قناعت کرکے بیٹھے رہو دانائوں کا قول ہے کہ دولت کوشش سے نہیں ملتی تو بیٹے نے کہا کہ ابا جان سفر کے بہت سے فائدے ہیں تفریح و طبع ، مختلف ملکوں کی سیر ، عجیب و غریب چیزوں کو دیکھنا ، دولت کمانے اور اس میں اضافہ کے ذرائع میسر آنا ،قسم قسم کے لوگوں سے ملاقات ہونا اور زمانے کے نشیب و فراز کا تجربہ وغیرہ ۔باپ نے کہا کہ بیٹا بیشک سفر کے فائدے بیتحاشہ ہیں لیکن یہ صرف پانچ طرح کے لوگ ہی کرسکتے ہیں
1: وہ سوداگر جس کو خدا نے دولت ، ہشمت ، غلام ، کنیزیں ، مستعد خدام دے رکھے ہوں روز نئے شہر جاتے ہوں نئی جگہ مقیم ہوتے ہوں اور ہر وقت دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوں۔
2: دوسرا وہ عالم جو اپنے کلام شیریں اور قوت فصاحت کے ساتھ جہاں جاتا ہو لوگ تعظیم کے لیئے کھڑے ہو جاتے ہوں اور خدمت میں لگ جاتے ہوں ۔
3: تیسرا وہ خوبرو کہ صاحب دل لوگ اس سے ملنے کی خواہش کریں بزرگ کہتے ہیں کہ تھوڑا سا حسن و جمال بہت سے زر و مال سے بہتر ہوتا ہے بلاشبہ اس کی صحبت کو لوگ غنیمت سمجھتے ہیں ۔
4: چوتھا وہخوش اواز شخص جو اپنے دائودی گلے سے بہتے پانی کو روک لے پرندوں کو اڑنے سے باز رکھتا ہو اپنی اس خداداد صلاحیت سے کتنے دلوں کو موم کرتا ہو باشعور لوگ اس کی صحبت میں بیٹھنے کی خواہش کرتے ہو اور اس کی خدمت بجا لاتے ہو ۔
5: پانچواں وہ شخص جو اپنے قوت بازو سے روزی حاصل کرتا ہے اور روٹی کے ایک لقمہ کے لیئے اپنی عزت و آبرو کا سودا نہ کرتا ہو ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں باپ نے کہا کہ اے بیٹے یہ جو صفات میں نے بیان کی ہیں یہ سفر میں دل جمعی کا باعث بنتی ہیں جو شخص ان صفات سے محروم ہے وہ محض خوش فہمی میں مبتلا ہوکر سفر کرتا ہے اور دوسرا کوئی اس کا نام و نشان بھی نہیں رہتا ۔بیٹے نے کہا کہ میں دانائوں کے قول کی مخالفت کیسے کروں جو کہ گیئے ہیں کہ رزق اگرچہ قسمت میں لکھا ہوتا ہے لیکن اس کے حصول کے لیئے تک و دو ضروری ہے میں ایک پہلوان ہوں میری کیفیت ایسی ہے کہ میں ہاتھی پر حملہ کرسکتا ہوں اور غصب ناک شیر سے پنجہ آزمائی بھی کرسکتا ہوں پس اے والد بزرگوار بہتر یہ ہی ہے کہ میں سفر کروں اب مفلسی کے مصائب میری طاقت سے باہر ہیں یہ کہکر والد سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے سفر کے لیئے روانہ ہوگیا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نوجوان پہلوان کے پاس پیسے تو تھے نہیں لہذہ ہمت مرداں مدد خدا کے حساب سے خالی جیب چلتے بنے چلتے چلتے وہ ایک تندوتیز دریا کے کنارے پر پہنچ گیا وہاں کیا دیکھا کہ کچھ لوگ سامان سفر باندھے کشتی پر سوار ہیں اور دریا عبور کرنے کی اجرت ملاح نے ان سے پہلے ہی لے لی تھی پہلوان نوجوان نے ملاح سے خوشامد کی کہ اسے بغیر اجرت لئے دریا عبور کردے لیکن اس نے کوئی مثبت جواب دینے کی بجائے کہا کہ اگر پیسے ہیں تو ٹھیک ورنہ میں نہیں لے جائوں گا وہاں موجود لوگوں نے بھی کہا کہ ہم سب پاگل ہیں جو کرایہ دے کر جارہے ہیں لہذہ اس پہلوان کی کسی نے نہ سنی اور کشتی روانہ ہوگئی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نوجوان پہلوان کو بڑا غصہ آیا اور اس نے ملاح سے بدلہ لینے کی ٹھانی اور اس کو آواز دی کہ اگر میرے قیمتی کپڑے تم کرایہ کے عوض قبول کرلو تو لےلو یہ سن کر ملاح لالچ میں آگیا اور کشتی کو دوبارہ کنارے پر لے آیا نوجوان پہلوان نے اس ملاح کو کشتی سے باہر کھینچا اور اس کی پٹائی شروع کردی اس ملاح کا دوست یہ سب دیکھ کر آیا تو اس پہلوان نے اس کا بھی وہی حشر کیا جو اس نے ملاح کا کیا تھا لہذہ انہوں نے مناسب یہ ہی سمجھا کہ اس پہلوان سے صلح کرلی جائے اور بغیر اجرت لیئے اسے دریا عبور کروادی جائے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ملاح نے اس پہلوان کو مجبوراً کشتی میں بٹھا تو لیا لیکن موقع کی تلاش میں تھا کہ اس کی مارپیٹ کا بدلہ وہ ضرور لے گا ابھی کشتی تھوڑی دور گئی تھی تو وہاں لوگوں نے دیکھا کہ یونان کی کسی شکستہ حال عمارت کا ستون کھڑا ہے جب کشتی اس کے قریب پہنچی تو ملاح نے کہا کہ کشتی میں کچھ خرابی ہوگئی ہے لہذہ تم میں سے جو طاقتور ہو وہ اس ستون پر چڑھ کر کشتی کی رسی کو ستون کے ساتھ باندھے اور کشتی کو روکے رکھے تو ہم اس کی مرمرت کرسکیں تو پہلوان اس ستون پر چڑھ گیا اور رسی کو باندھ کر کشتی روکے رکھی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پہلوان کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا لیکن وہ دانائوں کی وہ بات بھول گیا تھا کہ تو کسی کو دلی رنج پہنچائے پھر اس کو سو آرام بھی پہنچائے لیکن اس ایک رنجش کی خلش اس کے دل سے جاتی نہیں کیونکہ تیر زخم کرکے باہر تو اجاتا ہے لیکن وہ زخم اندر ہی رہ جاتا ہے جب اپنے طاقت کے نشے میں پہلوان رسی کو لیکر ڈرون پر چڑھا اور کشتی کو روکا تو اسی وقت ملاح نے اس رسی کو نیچے سے کاٹ ڈالا اور کشتی آگے کی طرف چلدی وہ پہلوان ستون پر چڑھا چیخ رہا تھا کہ میں نیچے کیسے اتروں لیکن اس کی آواز کسی نے نہ سنی اور وہ کشتی وہاں سے چلی گئی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب وہ ستون پر چپکا ہوا ہے اترے تو کیسے بھوکا پیاسا پورا دن گزر گیا اور جب رات ہوئی تو اسے نیند آنے لگی اور نیند نے جب غلبہ کیا تو وہ جھٹکے سے پانی میں گرا اور گھبرا کر ہاتھ پائوں مارنے لگا اور آہستہ آہستہ وہ کسی طرح کنارے پر پہنچ گیا اور سو گیا صبح جب آنکھ کھلی تو محسوس ہوا کہ ابھی ژندہ ہے بھوک کی شدت نے اسے پاگل کیا ہوا تھا درخت کے پتے اور گھاس کھاکر تھوڑی ہمت ہوئی تو آگے چل دیا کچھ دیر چلتا ہوا وہ ایک پر پہنچ گیا لیکن وہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے اور وہ ایک پیسہ لیکر پانی دیتے تھے پیاس اتنی شدید تھی کہ اس سے برداشت نہ ہوئی اور اس نے ان میں سے ایک کو پکڑ کر مارنا شروع کیا تا اس کے دوسرے ساتھی بھی آپہنچے اور پہلوان کی خوب پٹائی کی اور وہ بیہوش ہوگیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب اسے ہوش آیا تو اس نے وہاں سے ایک قافلہ کو گزرتے ہوئے دیکھا انہوں نے اسے پانی پلایا اور وہ ان کے ساتھ آگے روانہ ہوگیا رات کو قافلے والوں نے ایک جگہ پڑائو کیا تو محسوس ہوا کہ یہاں چوروں کا خطرہ ہے لیکن اس پہلوان نے کہا کہ گھبرائو نہیں میں پچاس آدمیوں پر بھاری ہوں اس کی یہ بات سن کر قافلے والوں کی جان میں جان آئی اور پہلوان کی خوب خاطر مدارت کی جب اس کا پیٹ بھر گیا تو لمبی تان کر سوگیا اس قافلے میں ایک جہان دیدہ بزرگ بھی تھا جہاں دیدہ یعنی تجربہ کار اس نے کہا کہ مجھے چوروں سے اتنا خطرہ محسوس نہیں ہوتا جتنا اس نوجوان پہلوان سے کیونکہ بعض اوقات چوروں کا ہی کوئی ساتھی ہم جیسے لوگوں گھس کر پہلے اپنا اعتماد بحال کرتا ہے پھر موقع محل دیکھ کر اپنے ساتھیوں کو خبر کردیتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس بزرگ نے کہا کہ ہوسکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ایک ہو ورنہ چوروں کے خطرہ کے پیش نظر ایسے گہری نیند آنے کا کیا سوال میرا مشورہ ہے کہ اسے سونے دو اور ہم یہاں سے نکل چلتے ہیں قافلے والوں کو مشورہ اچھا لگا اور انہوں نے اس پہلوان کو وہاں سوتا ہوا چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے گویا جب دن پوری طرح چڑھ گیا تو پہلوان کی آنکھ کھلی جب وہ بیدار ہوا تو دیکھا کہ یہاں تو ہو کا عالم ہے قافلہ تو دور کی بات یہاں تو انسان نما کوئی چیز نظر نہیں آتی رات بھر کا سویا ہوا اب بھوک پیاس نے پھر ستانا شروع کردیا گویا نڈھال ہوکر گر پڑا اور موت کا انتظار کرنے لگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کی زبان پر یہ جملہ تھا کہ مسافروں پر اپنا رعب وہ وہی جمع سکتا جس نے کبھی مسافروں والی زندگی گزاری ہو یعنی غریب الوطنی کا مزہ نہ چکھا ہو اتفاق سے ایک کسی ملک کا شہزادہ شکار کھیلتے ہوئے اپنے لوگوں سے جدا ہوگیا تھا وہ یہاں آنکلا اس نے جب اس نوجوان پہلوان کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو اس کے پاس آکھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ حال کیسے ہوا اس پہلوان نے اپنی پوری کہانی سنائی تو اس شہزادے کر رحم آگیا اسی وقت اس شہزادے کے سپاہی وہاں پہنچ گئے شہزادے نے بیش بہا انعامات کے ساتھ اسے اپنے ایک آدمی کے ساتھ روانہ کیا جس نے اس پہلوان کو اپنے شہر اور اپنے گھر بحفاظت پہنچایا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب وہ پہلوان گھر پہنچا تو باپ اسے دیکھ کر بڑا خوش ہوا اور اسے ژندہ سلامت دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور پوچھا کیسا رہا سفر ؟ تو پہلوان بیٹے نے سفر کی پوری روداد اپنے باپ کو سنائی ملاح کا ظلم ، لوگوں کی زیادتیاں اور قافلے والوں کی بے وفائی تو باپ نے کہا کہ بیٹا میں نہ کہا تھا کہ مفلس کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور شجاعت کا پنجہ ٹوٹا ہوا ہوتا ہے بیٹے نے کہا کہ ابا جان جب تک ہم تکلیف نہیں اٹھائیں گے تب تک راحت کیسے پائیں گے اپنی جان کو خطرہ میں نہیں ڈالیں گے تو دشمن پر فتح کیسے پائیں گے آپ نے دیکھا نہیں تھوڑی سی تکلیف کے عوض مجھے کتنی راحت نصیب ہوئی ہے ایک ڈنک کھا کر میں شہد کا کتنا ذخیرہ اپنے ساتھ لایا ہوں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں باپ نے کہا کہ بیٹا اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے تیری مدد کی اور وسیلہ بناکر شہزادے کو تیرے پاس بھیجا جس نے نہ صرف تجھے گھر پہنچایا بلکہ رکھنے انعام و اکرام سے بھی نوازا یہ صرف ایک اتفاق ہے اور اتفاقی باتوں پر تکیہ نہی کیا کرتے دیکھ بیٹا فارس کے ایک بادشاہ کے پاس ایک قیمتی انگوٹھی تھی جس میں ایک نگینہ جڑا ہوا تھا بادشاہ نے اسے ایک اونچی اور کھلی جگہ پر رکھنے کو کہا اور حکم دیا کہ جو تیرانداز اس انگوٹھی کے خول سے اپنا تیر گزاردے گا اسے انعام و کرام سے نوازا جائے گا اور وہ قیمتی انگوٹھی بھی اسے دےدی جائے گی اس وقت بادشاہ کے پاس کم و بیش چار سو تیرانداز تھے سب کو بلواگیا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب تیر اندازوں کا نشانہ چک گیا اور کسی کا تیر نشانے پر نہی لگا لیکن ایک بچہ جو اپنی چھت پر تیر اندازی کا کھیل کھل رہا تھا اس کا تیر نشانے پر لگ گیا بادشاہ نے اس کو بلوایا اور انعام سے نوازا اور انگوٹھی بھی اسے دے دی انعام پاکر اس بچے نے تیر کمان جلادئیے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا تو کہا کہ تاکہ میرا بھرم بن رہے تو بیٹا کبھی بڑے دانا لوگوں سے تدبیر نہیں بنتی تو کبھی ناداں بچے سے نشانہ غلطی سے صحیح جگہ لگ جاتا ہے ۔
( حکایات سعدی سے اقتباس)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شیخ سعدی کی ان دونوں حکایات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں نصیب اور مقدر میں جو لکھا ہے وہ مل کر رہتا ہے تکلیفیں پریشانیاں برداشت کرنے کی عادت بنالیں صبر اور شکر کے ساتھ زندگی گزار ا سیکھیں تو سب کچھ حاصل ہوگا جس طرح زیادہ کھانے کی عادت اور صبر نہ کرکے زندگی گزارنے کی عادت نہ اپنانے کی صورت میں پہلی حکایت میں موٹا نوجوان مر گیا اور بھوکا پیاسا رہ کر صبر کرکے زندگی گزارنے کی عادت والے بوڑھے کو زندگی دوبارہ مل گئی اور جس طرح نوجوان پہلوان کی طاقت کسی کام نہ آئی اور وہ وقت کی ٹھوکر کھاکر اب صبر و شکر کی زندگی گزارنے پر آمادہ ہوا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی میں کوئی فیصلہ کرنے کے بعد پچھتانے سے بہتر ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ لیا جائے شیخ سعدی کی ایسی بہت ہی خوبصورت حکایتیں اور باتیں ہمارے درمیان تحریری شکل میں موجود ہیں شرط ہے انہیں پڑھنا سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا میری کوشش ہوگی کہ ایسی ہی خوبصورت اور ہماری زندگی پر براہ راست اثرانداز ہونے والی شیخ سعدی علیہ الرحمہ کی حکایات اور ان کی خوبصورت باتیں آپ تک پہنچاؤں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سچ لکھنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے توفیق عطا کرے ۔امین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 136 Articles with 99831 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.