جمعہ نامہ:قصاص میں زندگی ہے

ارشادِ ربانی ہے:’’اور ذرا انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی اُس نے کہا "میں تجھے مار ڈالوں گا"۔ہابیل اور قابیل کا واقعہ گواہ ہے کہ قتل ِ ناحق کا سلسلہ دورِاول سے ہے۔ قابیل کی دھمکی پر ہابیل کا جواب تھا :’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے ،ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے" ۔ یعنی خشیت الٰہی ہی قتل ناحق میں مانع ہے اور مار کاٹ کرنے والے ظالم بالآخر جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔ قابیل جب احکام الٰہی سے سرکشی کرکے تکبر اور بغض وحسد کی نفسانی خواہشات میں ملوث ہوگیا تو:’’ اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر اُن لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’جو انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے، اس کے خون کا بوجھ آدم کے اس لڑکے پر بھی پڑتا ہے، اس لیے کہ اسی نے سب سے پہلے زمین پر خون ناحق گرایا ہے‘‘ ۔

قرآن کریم میں رب کائنات نے جن پابندیوں کا حکم ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ :’’ ۰۰۰ اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ ‘‘ْ ۔ کتاب اللہ میں رحمان کے (اصلی) بندوں کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں کہ :’’ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ‘‘۔ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا : ’’سب سے بڑے گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہیں‘‘۔ قتل و غارتگری کی روک تھام کے لیے دین اسلام میں سخت قوانین ہیں۔تورات کے حوالے سے ارشادِ حق ہے:’’اور اِسی کتاب میں ہم نے اِن پر فرض کیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور اِسی طرح دوسرے زخموں کا بھی قصاص ہے۔ پھر جس نے اُسے معاف کر دیا تو اُس کے لیے وہ کفارہ بن جائے گا۔ (یہ اللہ کا قانون ہے) اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔‘‘ بدقسمتی سے جدید تہذیب نے اس سزا کو ظالمانہ قرار دے کر دنیا بھر میں قتل و غارتگری کو آسان کردیا ہے۔

وطن عزیز میں فی الحال قتل و گارتگری کا دور دورہ ہے۔ میڈیا میں پونے کےپورش کار سے دونوجوانوں کے قتل کا معاملہ چھایا ہوا ہے۔ شراب کے نشے میں دھت وشال اگروال نے اس ایکسیڈنٹ میں 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے دو سافٹ ویئر انجنیرس کو کچل دیا۔ قاتل کا باپ سریندر اگروال چونکہ امیر کبیر آدمی ہے اس لیے اس نے اپنے رسو خ کا استعمال کرکے اتوار یعنی چھٹی کے دن اپنے بیٹے کو نابالغوں کی عدالت سے مضمون لکھنے جیسی شرط پر ضمانت دلوا دی۔ اس کے بعد اپنے ڈرائیور پر دباو ڈال کراسے قتل کا الزام اپنے سر لینے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ نابالغ قرار دیا جانےوالا وشال قتل سے قبل دو نائٹ کلب میں جاکر شراب پیتا ہے مگر پونے کے معتبر ترین سرکاری اسپتال کا ڈاکٹر اسے بے قصور ثابت کرنے کی خاطر خون کا نمونہ بدل دیتاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح قتل و غارتگری کے واقعات کم ہوں گے ؟قتل کے بدلے سزائے موت کو ظالمانہ کہنے والے قاتل سے تو ہمدردی رکھتے ہیں مگر مقتول اور ان کے اہل خانہ کا درد محسوس نہیں کرتے ۔ وہ نہیں جانتے کہ قصاص میں بظاہر موت مگر حقیقی زندگی کا پیغام پوشیدہ ہے۔ فرمانِ قرآنی ہے: ’’ عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے‘‘۔

قتل و غارتگری کا معاملہ میں سرمایہ داروں کو دولت کے بل بوتے پر قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے کا یقین ہوگیا ہےاس لیےوہ نڈر ہوگئے ہیں ۔ جمہوری سیاستدانوں کو خوف ہوتا تھا کہ رائے عامہ خلاف ہوجائے تو وہ اقتدار میں نہیں آسکیں گے لیکن فرقہ واریت کے نشے میں دھت اندھے بھگتوں نے اپنے رہنماوں کو بے پروا کردیا ہے ۔اس لیے انتخابی مہم کے دوران بھی رکن پارلیمان برج بھوشن سرن سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ کا قافلہ تین لوگوں کو روند کر رکنا تک گوارہ نہیں کرتا ۔ اس سے قبل مرکزی وزیر اجئے کمار ٹینی کا بیٹا بے قصور کسانوں پر گاڑی چڑھا چکا ہے مگر کسی کا بال بیکا نہیں ہوا۔ ارشادِ ربانی ہے : ’’ قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اُس کی مدد کی جائے گی ‘‘۔ مدھیہ پردیش میں اپنے بھائی کے قتل کا قصاص مانگنے والی انجنا اہیروار کے چچا کو اور پھر خود اسے بھی سیاسی دبنگوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ ان قاتلوں کوجب تک قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ دین ِ اسلام میں انسانی جان کی حرمت کے بابت تورات کے حوالے سے ارشادِ قرآنی ہے :’’اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی"۰۰۰‘‘۔ ان احکامات الٰہیہ کا نفاذ ہی تحفظ و سلامتی کی حقیقی ضمانت ہیں۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2115 Articles with 1372240 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.