طاغوت

آج کل سوشل میڈیا پر "طاغوت" کے راگ کی الاپ وائرل ہے۔ ہمارے معاشرے میں مشہور ہونے کے لئے متنازع طریقے اپنائے جاتے ہیں وہ کہتے ہیں نہ " بدنام ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا؟" کے مصداق کوئ ایسی بے تکی ، احمقانہ یا متنازعہ بات کردو کے بس سوشل میڈیا پہ راتوں رات وائرل ہوجاؤ!

حال ہی میں کسی ٹاک شو میں جو کہ ریٹنگ بڑھانے کے لئے واضح طور پہ اسکرپٹڈ بحث لگ رہی تھی۔ بدقسمتی سے ہم ایسے لوگوں کو عالم سمجھتے ہیں جو چند کتابیں پڑھ کے اور کچھ بھاری عربی اصطلاحات یاد کر کے پھر انگریزی کا تڑکا لگا کے اپنا علم جھاڑ رہے ہوتے ہیں۔ خیر اس پروگرام میں "طاغوت" لفظ کا تذکرہ ہوا۔(کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ۔۔۔۔)

شاید ہم میں سے بہت لوگوں نے یہ لفظ پہلے بھی سنا ہو ، اور شاید اس کے مفہوم سے بھی کچھ آشنا ہوں، مگر اس حالیہ متنازعہ ویڈیو کلپ کی وجہ سے لوگ اس کے بارے میں تفصیلی طور پہ جاننا چاہتے ہیں ۔

"طاغوت" لغت کے اعتبار سے لفظ طغیان سے نکلا ہوا ہے.اس کا معنی حد سے بڑھ جانا اور سرکشی کرنا ہے۔ دریا جب اپنی حدوں سے باہر نکلتا ہے تو یہ طغیانی ہے،شاعر نے کیا خوب کہا ہے~
امید نہیں اب کشتئ دل ساحل پہ سلامت جا پہنچے
دریائے الم بھی باڑھ پہ ہے اشکوں کی جدا طغیانی ہے

دین اسلام کی روشنی میں اس کی مزید وضاحت اس طرح سے بھی کی جا سکتی ہے کہ طاغوت سے مراد وہ حاکم ہے جو قانون الٰہی کے علاوہ کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور وہ نظام عدالت بھی اسی میں آتا ہے، جو نہ تو اقتدار اعلی یعنی ﷲ کا مطیع ہو اور نہ ﷲ کی کتاب کو سند مانتا ہو۔

قرآن مجید میں طاغوت کا آٹھ جگہ پر بیان ہوا۔ قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی اور خداوندی کا دم بھرنے لگے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ سورہ بقرہ اور سورہ نحل کی آیات سے واضح ہے کہ طاغوت کا انکار کرنا اور اس کی دعوت سے بیزاری اختیار کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن میں سب سے بڑی مثال جو طاغوت کے معنیٰ میں کہی گئی ہے وہ فرعون کی ہے!
اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (طٰہ: 24)
’’تم فرعون کے پاس جائو، وہ بہت سرکش ہوگیا ہے!

ایک ستم ظریفی کچھ مترجمین و مفسرین نے ’طاغوت‘ کا ترجمہ’بت‘ کیا ہے، جو کہ کسی طور بھی مناسب طرز عمل نہیں۔ بت تو بے جان ہوتے ہیں، نہ وہ اپنی مرضی سے وجود میں آتے ہیں اور نہ ہی عوام الناس کو اپنی بندگی کی جانب دعوت دیتے ہیں۔ بلکہ ان بتوں کی نسبت ہمیشہ شخصیات کی جانب ہوتی ہے۔ اب اگر وہ شخصیت لوگوں کی اپنی الوہیت کی جانب بلانے والی ہو تو وہ ظاغوت ہے۔ یہاں ایک اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ گناہ اور سرکشی میں فرق ہوتا ہے۔ گناہ گار طاغوت نہیں ہوتا بلکہ سرکش طاغوت ہوتا ہے۔ یعنی وہ شخص جو لوگوں کے سامنے اللہ کی شریعت یا اُس کے کسی جز کے انکار کی دعوت رکھے، اور اللہ کے دین کو ظاہری یا مخفی طور پر نقصان پہنچانے کی قصداً سعی کرے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کو پختہ و دائم رکھے اور کسی بھی طاغوتی قوتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین

Sabeen Abbas
About the Author: Sabeen Abbas Read More Articles by Sabeen Abbas: 5 Articles with 3946 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.