لوگ تاج محل کو محبت کی علامت سمجھتے ہیں مگر یقین کریں
کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر اورتعمیرات کو دنیا میں
محبت اور عقیدت کی معراج قرار دیا جاتا ہے۔ ذرا درود پاک پڑھیئے اور اپنے
دلوں کو عشق محمد ﷺ کی محبت سے منور کرکے پڑھیں کہ ترکوں نے اپنے دور حکومت
میں جب مسجد نبوی کی تعمیر اور توسیع کاارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع
عریض ریاست میں اعلان کیا کہ ا نہیں عمارت سازی سے متعلق ماہرین کی ضرورت
ہے ۔ اعلان کرنے کی دیر تھی کہ عمارت سازی کا ہنر جاننے والے ہزاروں افراد
نے اپنی خدمات پیش کردیں۔سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا
گیا جس میں اطراف عالم سے آنے والے ماہرتعمیرات کو الگ الگ محلوں میں بسایا
گیااور وہاں انسانی ضروریات کی ہر چیز وہاں مہیا کردی گئی۔ اس کے بعد عقیدت
اور احترام کا ایسا باب شروع ہوا جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی ۔ سلطنت
عثمانیہ کے فرمانروا اس شہر میں خود تشریف لائے اور عمارت سازی کے ماہرین
کو تاکید کی کہ اپنے ذہین ترین بچوں کو فن عمارت اور فن تعمیر اس طرح
سکھادی جائے کہ وہ اس فن میں یکتا اور بے مثال ہو جائیں۔ اس کے بعد سلطنت
عثمانیہ ان بچوں کو حافظ قرآن اور بہترین عالم بنائے گی ۔دنیا کی تاریخ کا
یہ عجیب و غریب منصوبہ سال ہاسال تک جاری رہا ۔30 سال بعد نوجوانوں کی ایسی
جماعت تیار ہوگئی جو نہ صرف فن تعمیر کے تمام شعبوں میں یکتا تھے بلکہ ہر
نوجوان حافظ قرآن اور باعمل عالم بھی بن چکا تھا۔ لگ بھگ 500 افراد مکمل
طور پر تیار ہوچکے تھے۔ اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت
کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں، تختے حاصل کئے گئے اور شیشے کا سامان بہم
پہنچایا گیا۔ پھریہ سارا سامان نبی کریم ﷺ کے شہر مدینہ پہنچایا گیا ۔ ادب
کا یہ عالم تھا کہ فن تعمیر سے متعلق سامان کو محفوظ رکھنے کے لیے شہر
مدینہ سے دور ایک بستی بسائی گی تا کہ تعمیرات کا شور سے نبی کریم ﷺ کے شہر
مدینہ کا ماحول خراب نہ کردے۔ نبی کریم ﷺ کے ادب کی وجہ سے اگر کسی پتھر یا
لکڑی میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی تو اسے واپس اس بستی میں بھیج دیا جاتا
۔ماہرین کو حکم تھا کہ ہر شخص کام کے دوران با وضو رہے ، درود شریف اور
تلاوت قرآن کرتا رہے۔ اس دوران روضہ رسول ﷺ کی جالیوں پر کچھ اس انداز سے
کپڑا لپیٹ دیا گیا کہ گرد غبار روضہ رسول ﷺ اور ریاض الجنہ پر نہ پڑ سکے ۔
یہ تعمیراتی کام تقریبا پندرہ سال جاری رہا ۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ ایسی
محبت اور ایسی عقیدت سے دنیا بھر میں نہ کوئی تعمیر ہوئی اور نہ کبھی ہو
گی۔اسی طرح کی محبت اور چاہت کے ایک واقعے کا تذکرہ یہاں کرنا ضروری سمجھتا
ہوں تاکہ مسلمانوں کے ایمان کو مزید پختہ اور تازہ کیا جاسکے ۔ڈاکٹر محمد
کمال اسماعیل 1908 کو مصر میں پیدا ہوئے اور 2008ء میں دنیا سے چل بسے۔وہ
ایک عظیم انجینئرتھے جس نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کو ڈیزائن کیااور
کوئی معاوضہ نہ لیا لیکن پھراﷲ تعالیٰ نے اس کی کیسے مدد کی ۔یہ بھی ایک
اچھوتا سوال ہے؟۔ وہ پہلے انجینئر تھے جس نے حرمین شریفین کے توسیعی منصوبے
کی تعمیر اور عمل درآمد کی ذمہ داری قبول کی ۔اس نے شاہ فہد اور بن لادن
کمپنی کے بار بار اصرار کے باوجود انجینئرنگ ڈیزائن اور آرکیٹچرل نگرانی
کیلئے کسی قسم کا معاوضہ لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگرمیں دو مقدس
مساجد کے کاموں کیلئے معاوضہ لوں تو قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کا سامنا کیسے
کروں گا۔ اس نے 100 سال سے زیادہ عمر پائی ۔ دنیا اور میڈیا کی چکا چوند سے
دوررہ کر حرمین شریفین کی خدمت کی۔اس عظیم آدمی کے توسط سے حرمین شریفین
میں نصب کئے گئے سفید پتھر وں کے حصول کی کہانی اس سے بھی دلچسپ ہے۔ یہ وہ
پتھر ہیں جو حرم مکی میں مطاف چھت اور باہر صحن میں لگے ہیں، ان کی خصوصیت
یہ ہے کہ گرمی کو جذب کرکے فرش کی سطح کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ یہ پتھریونان
میں ایک چھوٹے سے پہاڑ میں دستیاب تھے۔ ڈاکٹر محمد کمال ہوائی جہاز کے
ذریعے یونان گئے اور حرم شریف کیلئے کافی مقدار میں تقریباً آدھا پہاڑ
خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔معاہدہ پر دستخط کر کے وہ واپس مکہ لوٹے تو کچھ
دنوں بعد وہ سفید پتھر سٹاک میں آگیا اور حرم شریف میں پتھر کی تنصیب بھی
مکمل ہوگئی۔15 سال بعدنجینئر محمد کمال کو جب سعودی بادشاہ کی جانب سے یہ
پیغام ملا کہ ایسا ہی پتھر مسجد نبوی میں بھی لگایا جائے تو وہ پریشان
ہوگیا کیونکہ کرہ ارض پر واحد جگہ یونان ہی تھی جہاں سے یہ پتھر دستیاب تھا
۔آدھا پہاڑ تو وہ پہلے ہی خریدا جاچکا تھا ۔انجینئر محمد کمال یونان میں
اسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سے ملے اور ماربل کی بقایا مقدار کے بارے میں
استفسار کیا تو چیف ایگزیکٹو نے بتایا وہ ماربل کو فروخت کیے بھی پندرہ سال
ہو چکے ہیں۔ یہ جواب سن کر محمد کمال بہت افسردہ ہوئے اور واپس جاتے ہوئے
آفس سیکرٹری سے ملے اور گزارش کی کہ مجھے اس شخص کا پتہ بتاؤ جس نے بقیہ
ماربل خریدا ہے۔ سیکرٹری نے کہا پرانا ریکارڈ تلاش کرنا ذرا مشکل ہے لیکن
آپ مجھے اپنا فون نمبر دے جائیں ،میں تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ انجینئر
محمد کمال نے اپنا نمبر اور ہوٹل کا اہڈریس دے دیا اور اگلے دن آنے کا وعدہ
کرکے چلے گئے۔دفتر چھوڑنے سے پہلے کمال نے سوچا کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ
پتھر اور پتھر خریدنے والے کو تلاش کرتا پھروں ۔ یہ اﷲ اور اس کے حبیب ﷺ کا
معاملہ ہے وہ خود ہی کوئی بندوبست کردیں گے۔ اگلے دن ایرپورٹ جانے سے چند
گھنٹے قبل اسے ایک فون کال موصول ہوئی ۔ دوسری جانب اس ادارے کے سیکرٹری
بول رہے تھے ،وہ کہہ رہی تھے کہ مجھے بقیہ ماربل کے خریدار کا ایڈریس مل
گیا ہے۔ ا ب محمد کمال سوچ میں پڑ گئے کہ خریدار کے ایڈریس کو کیسے تلاش
کروں گا جبکہ اتنا لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ محمدکمال یہ سوچتا ہوا ایک بار اس
دفترجا پہنچا تو سیکرٹری نے اس کمپنی کاایڈریس اس محمد کمال کے حوالے کردیا
جس نے ماربل خریدا تھا، جب کمال نے ایڈریس پر نظر ڈالی تو کچھ دیر کیلئے اس
کا دل دھڑکنا بھول گیا ،پھر زور کا سانس لیا کیونکہ وہ کمپنی جس نے ماربل
خریدا تھا وہ بھی سعودی عرب ہی کی تھی۔محمدکمال نے سعودیہ کی فلائیٹ پکڑی
اور اسی دن متعلقہ کمپنی کے دفتر پہنچا اور ڈائریکٹر ایڈمن کو ملا اور
استفسار کیا کہ آپ نے اس ماربل کا کیا کیا جو یونان سے خریدا تھا تو اس نے
جواب دیا مجھے یاد نہیں۔ پھر اس نے سٹاک روم سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا
کہ وہ سفید ماربل جویونان سے منگوایا تھا وہ کدھر ہے تو انہیں بتایا گیا کہ
پتھروں کی ساری مقدار کمپنی کے سٹور میں موجود ہے اور اس کو کبھی استعمال
نہیں کیا گیا یہ سنتے ہی محمد کمال ایک بچے کی طرح رونے لگا اور کمپنی کے
مالک کو پوری کہانی سنائی۔ اس نے کمپنی کے مالک کو بلینک چیک دیا اور کہا
اس میں جتنی رقم بھرنی ہے بھر لو اور تمام ماربل میرے حوالے کردو۔ جب کمپنی
کے مالک کو پتہ چلا کہ یہ تمام ماربل مسجد نبوی میں استعمال ہوگا تو اس نے
کہا میں ایک ریال بھی نہیں لوں گا ۔اﷲ نے یہ ماربل مجھ سے دانستہ خرید
کرایا ہے اورمیں اسے خرید کر بھول گیا۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ یہ ماربل
مسجد نبوی الشرف میں استعمال ہونا ہے۔بعض اوقات انسان خود کچھ نہیں کرتا
لیکن قدرت اس سے ایسا کام لیتی ہے کہ زندگی بلکہ آخرت میں وہی کام اس شخص
کی بخشش کا باعث بنا دیتی ہے ۔سلطنت عثمانیہ کے وہ لوگ اور محمد کمال
اسمعیل بھی دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ اور ارض مقدس سے ان
کی محبت رہتی دنیا تک ایک مثال بنی رہے گی ۔اﷲ تعالی ہمیں بھی کوئی ایسا
عظیم کارنامہ انجام دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے کہ دنیا سے جانے کے
بعد بھی ہمارا نام بھی آخرت میں زندہ لوگوں میں شمار ہو ۔ بیشک امید پر
دنیا قائم ہے ۔
|