برداشت ایک پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے

انسانی رویوں میں برداشت کا پہلو نہایت مہم عنصر ۔ اس کے بغیر کسی معاشرے میں امن و امان نیز ایک پر سکون ماحول کا تصور ممکن نہیں ۔

تحریر :خادم حسین

ربِ کریم نے انسان کو جہاں گونا گوں صلاحتیں اور امتیازات ودیعت کیں ہیں وہی ایک ایسا َََمَلکہ عطا کیا ہے جو معاشرے کے انتظام و انصرام نیز انسانی زندگی میں خلل واقع ہونے سے بچانے کے لیے انسان کو عنایت کی ہے ، وہ قوت و مَلکہ برداشت کے نام سے موسوم ہے۔

چونکہ ہماری سرشت میں عدم برداشت اور کنج ہمتی شامل ہے اس لیے بسا اوقات کسی معمولی مسٸلے کی پاداش میں یا تو کسی سے جھگڑتے ہیں یا غم و غصے کا اظہار الفاظ سے کرتے ہیں جو کہ جوابی حملہ ہوتا ہے ، یہی صورت حال فریق ِ مخالف کو بھی پیش آسکتی ہے اور بھی اپنے قواٸے برداشت کو معطل کر کے فوری جواب دیتا ہے یا عملاً کوٸی ایسا اقدام کر بیٹھتا ہے جو ضرر کا موجوب بنتا ہے ۔

ہمارے سماج میں برداشت کو ایک عمومی اور خالی خولی تصور مانا جاتا ہے اور اس کے متعلق معاشرے پر پڑنے والے مختلف النوع ثمرات سے ناواقف ہوتے ہیں ساتھ ہی اس کے دیر پا اثرات معاشرے پر ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی پہ نمایاں نظر آتے ہیں اس جانب بھی غفلت کا شکار نظر آتے ہیں

عوام تو عوام خواص بھی عدم برداشت کے زیر سایہ ایسے اقدامات کرتے ہیں جو بعد میں باعث شرمندگی اور وجہ ندامت کا باعث بنتے ہیں۔
پرامن معاشرے کی تشکیل اور اس کی نمو کے لیے جہاں بہت ساری دوسری ضررویات لازمی ہیں وہی برداشت کا عنصر بھی لاگزیر امر ہے
اگر لوگ اس قضیے کو سمجھ لیں کہ برداشت کے زریعے نظام زندگی کو بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے تو شاید برداست کے متعلق اپنی آراء پہ نظر ثانی کریں اور برداشت اور متشدد نہ ہونے کا پکا ارادہ بنا لیں ۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے سماج کی تشکیل سے برداشت کے لیے فضا ہموار ہوتی ہے اور آخر کار مبطلا بہ مساٸل میں برداشت سیکھ لیتے ہیں ۔ یہی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معاشرے میں ایک بھی فرد کو َصَرف نظر کرنا موجب ہلاکت بنتا ہے نہ صرف فردی حیثیت سے بلکہ کلی طور پر بھی اس کےمہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ کیسے کب اور کس درجے پہ یہ اثرات معاشرے کو افراد ،کو ،گھر بار کو غرض پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔

معاشرے کی بقا اور آگے بڑھنے کی گنجاٸش اس بات پر پنہاں ہے کہ یہاں پہ لوگوں کے مابین تعامل کی کیا کیفیت ہے کیا ان کے درمیان ہم آہنگی اور زہنی مطابقت پاٸی جاتی ہے نیز ایک دوسرے کی آراء اور مکالمے کو قبول کرتے ہیں یا پھر رد کر کے زہنی تسکین پاتے ہیں

رویے ہماری داخلی کیفیات کے مجموعے کا نام ہے اسی سے انسان کی شخصیت تشکیل پاتی ہے اور معاشرے کا عضو قرار پاتا ہے ۔ اس سارے فاعلی وجود میں ایک قوت جو انسان کی بقا اور مسابقتی حظ اٹھانے کی زمہ دار ہے وہ قوت برداشت اور صبر کا پیالہ پینا ہے جو نہ صرف انسانی بقا کے لیے اہم بلکہ مہم مسٸلہ ہے اسی طرح مجموعی طور پر سارے سماج پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دورس نتاٸج کے حامل بھی ۔

اگر مبالغہ نہ ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ برداشت کا مادہ انسانی بقا کے لیے اسی طرح ناگزیر ہے جس طرح حیات کو مسلسل و برقرار رکھنے کے لیے ہوا پانی کی حاجت پڑتی ہے ۔ نہ صرف برداشت کا مَلکہ انسان کو مضبوط اور توانا بناتا ہے بلکہ اس کے اندر ایک اسی کیفیت کی آبیاری کا موجب بنتا ہے جو زندگی کے نشیب و فراز کو عبور کرنا سیکھاتا ہے ، زندگی میں الوالعزمی اور عزم کے ساتھ باہمی رویوں کو جذب کرنے کے ساتھ اپنے اپنے تعمیری سوچ کو پروان چڑانے کا سبب بنتا ہے ۔


یہی برداشت کا ملکہ پورے معاشرے کے لیے امن و سلامتی کا ضامن بنتا ہے کیونکہ جب فرد معاملات میں عفو و درگزر سے کام لیتا اور برداشت کی فضا قاٸم کرنے کی سعی کرتا ہے تو یہ کلی طور پہ بھی اثر انداز ہوتا ہے فرد ہی معاشرے کی اکاٸی ہے بہت سے افراد ہوں جو عدم برداشت سے کام لیں اور اس کے بامقابل کچھ افراد برداشت کرنے کی روش اپناٸیں اور اپنے معاملات میں افراط و تفریط کا شکار نہ ہوجاٸیں وہ علاقہ ، محلہ اور شہر اس کے گرد و پیش مذکورہ اول والی کیفیت سے سے ارفع و اعلی نظر آتا ہے تہذیبی حوالے سے بھی اور انسانی کے رویوں میں مثبت تبدیلیوں کے لحاظ سے بھی

مکرر عرض یہی ہے کہ جب تک افراد میں ،ملتوں میں، اور مجموعی طور پر پوری دھرتی برداشت کے ساتھ آگے نہیں بڑھے گی ، اپنے فیصلے اور امور میں کم بیشی ہونے کے بنیاد پہ یا کسی زیادتی کے موقع پہ جب تک افہام و تفہیم سے مساٸل پہ قابو نہیں پایا جاٸے گا غیر ضروری جذباتیت ، سطحیت اور شور شرابے کہ دکانیں عام رہیں گٸیں اور تہذیبی رشد کا سفر منجمد رہے گا ۔

ہم نے شروع میں بات کی کہ برداشت ایک قوت ہے ایک ملکہ ہے جو انسانی کمالات کی تمہید بنتا ہے اس لیے کسی بھی طور سے برداشت کے دامن کو چھوڑنا نہیں چاہیے تاکہ ہماری نجی اور سماجی زندگی میں اعتدال پیدا ہو ۔ اور یہی روش پر امن معاشرہ بننے کہ نٸی کلید بنتی ہے جوں جوں ہم ترقی کے منازل طے کرتے ہیں ہمیں اسی شدت سے ان رویوں کو مزید پختہ اور منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔

یوں اس بات کا اختتام کرتے ہوٸے اتنا کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قوتِ برداشت اور صبر کرنے کا انعام بڑا ہے خود انسان کے کمالات کی نشو و نما کے لیے بھی برداشت کی ضرورت پڑھتی ہے یہی فردی تبدیلی کلی طور پہ بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے ۔مزید یہ کہ اس سے علمی و ساٸنسی علوم میں پیش رفت بھی ممکن ہے کیونکہ جن معاشروں میں اپنی راٸے کے لیے دوسرے کی راٸے کا احترام اور اس طرز فکر کو برداشت نہیں کیا جاتا وہ حقیقی طور سے فکری بانجھ پن کا شکار ہوجاتے ہیں اس کے برعکس جہاں پہ برداشت، رواداری اور راٸے کا خیر مقدم کیا جاتا ہے قطع نظر اس بات کے کہ اس کے مخالف اور حامی کتنے ہیں وہ راٸے کس حد تک معقول ہے قبول کرتے ہیں اور بحث و مباحث کا نیا باب کھلتا ہے جس سے علم کی نٸی کونپلیں نکلتی ہیں یہی اس معاشرے کی ترقی کی نویدِ نو ثابت ہوتی ہے٠




 

Khadim Hussain
About the Author: Khadim Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.