ناظریں کرام یہ درست ہے کہ ہر انسان کو اپنا ہی دور اچھا
لگتا ہے اور ایسا کیوں ہے حالانکہ دیکھا جائے تو ہر گزرے لمحے کیساتھ دنیا
تبدیل ہوتی جا رہی اور اُس تبدیلی میں بظاہر پہلے سے زیادہ رونق دلچسپی اور
رنگینوں کا سامان ہوتا ہے اسکے باوجودہ انسانوں کی اکثریت ماضی کو دلچسپی
سے یاد کرتی ہے حالنکہ ایسا کرنے سے اُسے خوشی نہیں بلکہ اسکی افسردگی میں
اضافہ ہی ہوتا ہے اسکے باوجود انسان اس تکلیف دہ روش سے باز نہیں آتا
اسکی وجہ یہ ہے کہ اُس گُزرے وقت کیساتھ اسکے بچپن اور جوانی کی حسین یادیں
جڑی ہوتی ہیں اور اسکی یادوں سے جڑے اس زمانے کی فلمیں لوگ فیشن باتیں
روایات رویے باتیں لہجے شکلیں اسے پسند ہوتے ہیں کیونکہ وہ زمانہ اسکا ہوتا
ہے اور جسکے پھر واپس نہ آنے کا یقین ہونے کیوجہ سے بس اسے یاد کر کر کے
ایک بے چین اُداس تکلیف دہ آ سودگی حا صل کرنے کی کوشش کرتا ہے اگرچہ اس
عمل سے تکلیف کے علاوہ کچھ حاصل کچھ نہیں ہوتا لیکن اس سے اسکے باشعور اور
حساس ہونے کا پتہ ضرور چلتا ہے
اور یہی چیز ایک انسان کے انسان ہونے کی دلیل ہے اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک
یونیورسل ٹرتھ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان وقت اورحالات سے بہت کچھ
سیکھتا ہے جو اسکی سوچ اور عمل میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے اور غیر محسوس
انداز میں اسکی پوری شخصیت یکسر تبدیل ہو جاتی ہے
اور سوچ عمل اور شخصیت کی یہ تبدیلی زمانے کیساتھ آسانی سے چلنے میں اسکی
بڑی ہی مدد گار ثابت ہوتی ہے جو اسکی زندگی کو آسان بناتی ہے اور جو شخص
خود کو دقیانوسی خیالات کی وجہ سے اپنی سوچ کو تبدیل نہیں کرتا اسکی مثال
اپنے ملک اور اپنے لوگوں میں رہتے ہوئے بھی اُس شخص جیسی ہوتی جو رہتا تو
امریکہ کی کسی کالونی میں ہو لیکن اسے انگلش بولنا نہ آتی ہو
جب سے دنیا قائم ہوئی ہے انسان نے عمومی اعتبار سے اور خصوصی طور پر ذھنی
اعتبار سے اتنی ایورنس اور ترقی کبھی حاصل نہیں کی جو اس دور کے انسان نے
حاصل کر لی ہے اور یہ سب نالج انٹر نیٹ کے مرہون منت ہے لیکن اسکے ساتھ
ساتھ سطعی ذہنیت کے انسانوں کے لئیے انٹر نیٹ ایک اندھا کنواں یا بھیانک
اور مہلک وبا ثابت ہوا جسکا شکار اس دور کی اکثریت ہو چُکی ہے اور اسکے
اثرات جا بجا ہر شہر محلے گلی اور گھروں رویوں اخلاقیات بے حسی مطلب پرستی
ہوس بے راہ روی بے وفائی بے ادبی کی شکل میں دیکھے اور محسوس کئیے جا سکتے
ہیں
لوگوں کی اندر کی خباثتیں اور جہالتیں خود انکے اپنے ہاتھوں ظاہر ہو ہو کر
ساری دنیا پر عیاں ہونے لگی ہیں اور لوگوں کے وہ گناہ اور جرم جو اس سے
پہلےصرف بندے اور اللہ کے ما بین ایک پردہ تھے انہیں لوگوں نے خود عیاں کر
کے ساری دنیا کو بتانا شروع کر دیا ہے
جس سے اللہ تعالی کے اس فرمان پر یقین کامل بھی حاصل ہوا کہ دنیا میں اہل
عقل تھوڑے ہیں خصوصی طور بر صغیر ایشیا میں پاک و ہند کی عوام پر انٹر نیٹ
کے مثبت اثرات دور دور تک نظر نہیں آتے اور انٹر نیٹ کا جتنا غلط استعمال
اس خطے میں ہو رہا اتنا غلط استعمال تو شاید ان صہونی طاقتوں اور ممالک نے
بھی نہ سوچا ہو گا جنہوں نے شاید انٹر نیٹ بری نیت اور ارادےسے ہی ایجاد
کیا ہو گا
اگرچہ فیس بک وٹس ایب یو ٹیوب ٹیوٹر ٹک ٹاک جیسی سہولت نے بہت سے کاروبار
اور انکی پروموشن عام آدمی کے لئیے نوکری اور آمدن کے ذرائع بھی مہیا
کئیے لیکن پاکستان میں اس نعمتوں نے فحاشی عریانی کو بھی عام اور ہر آدمی
کی پہنچ تک کر دیا ہے اور لوگوں نے اپنے گھروں میں جسم فروشی کے اڈے کھول
لئیے ہیں اس وبا نے دیہاتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور نتیجتا
دہاتی لوگ جن کی پہچان ہی کبھی سادگی معصومیت اور خلو ص ہوا کرتی تھی اب وہ
بھی اس سے محروم ہو چُکے ہیں
نیز خوف سننسی پروپگنڈہ دشمنیوں اور بد معاشی اسلحے کی نمائش قانون شکنی
اور جرائم کو فروغ دینے کے کلچر کے لئیے بے خوف اور بے دریغ اس پلیٹ فارم
کو استعمال کیا جا رہا ہے
چار موسموں اور کلمے کے نام پر قائم ہونے والا یہ ملک واحد جنت ہے جہاں
آپکو کوئی پوچھنے والا نہیں جہاں قانون اور آئین کتابوں میں درج تو ہے
لیکن عمل کہیں نظر نہیں آتا -
|