کچھ دن پہلے کسی کام سے ایک قریبی محلے میں میرا جانا ہوا...
دوپہر کا وقت تھا...گرمی عروج پر تھی . گلی میں جنرل سٹور ٹائپ دکان دیکھی
تو سوچا سٹنگ پی کردماغی توازن ٹھنڈا کیا جائے.... میں نے بائک روکی اور
دکاندار کہ جس کی عمر پچاس کے قریب تھی....سے یخ سٹنگ طلب کی اور لیکر دکان
کے باہر شیڈ کے نیچے سا ئیڈ پر کھڑا ہوکے خود کو بوسٹ آپ کرنے لگا... اتنے
میں ایک پیاری سی بچی جو کہ جسمانی خدوخال سے بلوغت کی حدوں کو چھو رہی تھی
مگر چہرے کی معصومیت اور انداز و اطوار سے میرے اندازے کے مطابق 10 سال سے
زائد عمر کی نہ تھی. ..دکان پر آئی اور بظاہر کرخت نظر آنے والے دکاندار سے
1.5 لیٹر کوک دینے کو کہا... ساتھ ہی وہ فرنٹ ڈیسک پر پڑی ٹافیوں, نمکو,
سلانٹی وغیرہ میں سے بھی چیزیں چننے لگی. دکاندار نہایت شفقت اور محبت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے بچی کو چیزوں کے ریٹ بھی بتانے لگا اور بچی کیساتھ خوش
گپیاں بھی کرنے لگا...کیونکہ میری اپنی کوئی بہن نہیں تو مجھے اس طرح کی
معصوم بچیاں بہت پیاری لگتی ہیں اور حسرت ہوتی ہے کہ میری بھی ایک ایسی بہن
ہوتی.....لہذا میں اسکو نوٹس کرنے لگا.
خیر میں دکان کے باہر سائیڈ پر اس اینگل سے کھڑا تھا کہ دکاندار مجھے نہیں
دیکھ سکتا تھا جبکہ دکاندار اور بچی مجھے صا ف نظر آرہے تھے... اسی اثنا
میں دکاندار نے خوش گپیاں کرتے کرتے بچی کے گا ل پر ہاتھ لگایا اور پھر
دیکھتے ہی دیکھتے بچی کے ابھرتے نسوانی نقوش پر چٹکی کاٹ لی...... بچی اسکی
اس حرکت پر ہونٹ بھینچ کر شرمانے لجانے لگی اور ٹماٹر کی طرح سرخ ہو کر
سکڑنے سمٹنے لگی... اور جلدی جلدی چیزیں لیکر بھاگ گئ. .. ممکن ہے ایسا
پہلی بار ہوا ہو اسکے ساتھ یا قریبی دکان پر آنے کے باعث ایسا روز ہوتا ہو
اسکے ساتھ.....مگر میرے مشاہدے کے مطابق بچی کا اسکی اس حرکت پر خفا نہ
ہونا اور بس نا سمجھی میں شرمانا صاف ظاہر کر رہا تھا کہ دکاندار موصوف
پہلے بھی بچی کو ہراساں کرتا رہتا ہوگا....
بہرحال میں اس صورتحال پر کشمکش میں تھا کہ کیا ایکشن لوں... اسے لعن طعن
کروں... لوگوں کو جمع کروں....؟ مگر چونکہ میں اس محلے میں اجنبی تھا اس
لیے خاموشی اختیار کر لی مبادا کہ محلے کے اس شریف دکاندار کو بے قصور سمجھ
کر لوگ مجھے ہی جھوٹے الزام میں نہ دھر لیں.... میں نے چبھتی نگاہوں سے اسے
بوتل کے پیسے ادا کیے اور وہاں سے روانہ ہوگیا... بس اس واقعے نے مجھے ایک
نئی تحریک دی... معاشرتی و اخلاقی مسائل سے وابستہ کیسوں کی تو میں خود سے
تلاش میں رہتا ہوں....
بس پھر کیا تھا... گرمی اور مصروفیت کی پروا نہ کرتے ہوئے میں نے اگلے تین
روز میں اپنا محدود سا شہر چھان مارا.... حتی المقدور ہر محلے کی ہر ایک
گلی کا وزٹ کیا... جہاں گلی میں دکان نظر آتی اور وہاں چھوٹی بچیاں بھی
موجود ہوتیں تو وہاں رک کر بہانے سے کوئی چیز لیتا... یا دکاندار کی نفسیات
کو پرکھ کر مزید مشاہدے کیلئے بوتل بھی پی لیتا...جسے ختم کرنے میں مجھے 15
منٹ ضرور لگتے.... پھر ڈائری میں دکان کا نام اور لوکیش نوٹ کرتا اور آگے
نکل جاتا... یوں اس ریسرچ آپریشن کے تین دنوں میں , میں نے 15 بوتلیں پی
اور 70 عدد شاہی میوے, تلسیاں, ہیوٹ والی ٹافیاں بھی جمع کیں.....مگر اس سے
حاصل ہونے والا مشاہدہ میرے لئیے کسی خزانے سے کم نہ تھا.....!!!
دوستو....!!! عموماً آپ اکثر وائرل ویڈیوز میں دیکھتے ہیں کہ مسجدوں یا
مدرسوں کے امام اور سکول ٹیچرز (انتہائی معزرت کے ساتھ) پر یہ سچ ہے کہ
اکثر یہ چھوٹے بچے اور بچیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں مشہور
ہیں...مگر کیا آپ نے اپنے گلی محلے کے دکانداروں پر بھی کبھی غور کیا...
؟؟؟ انکی عمر پر مت جائیے گا... دکان چلانے والے نوجوان لڑکوں سے لیکر عمر
رسیدہ بوڑھوں تک کی حرکتوں کا جائزہ لیا....؟؟؟
مگر میں نے لیا.... 232 دکانوں کے مشاہدے کے بعد صرف 78 دکانداروں کو میں
نے چھوٹے بچے بچیوں کی حد تک ٹھیک پایا...جبکہ بقیہ 154 دکانداروں کی
حرکتیں چھوٹی بچیوں کیساتھ ذومعنی اور بے مطلب , بے مقصد مذاق پر مشتمل
تھیں... جبکہ ان کے ساتھ ہاتھ کا مزاق اور انھیں ٹچ کرنا بھی معمول کی بات
تھی.... !! ایک دکاندار اگر ایک باپ کے سامنے بھی اسکی چھوٹی بچی کے گال پر
پاتھ پھیرے تو باپ کو بہت اچھا لگے گا کہ شریف انسان میری بچی سے بہت انسیت
رکھتا ہے...مگر میں اپنی ریسرچ کے مطابق اسکے پیچھے چھپی شیطانیت کو پرکھ
سکتا ہوں... ان دکانداروں میں کچھ ہمارے اپنے اور کچھ غیر ہوتے ہیں.... غیر
تو ایک طرف مگر زیادہ تر اپنے ہی چھوٹی رشتہ دار بچیوں پر جنسی نگاہ رکھتے
ہیں... بچیاں ان سے مانوس بھی ہوتی ہیں اور کسی کو کچھ بتاتی بھی نہیں....
میرا فرض تھا کہ آپکو بھی اس میں شریک کر کے باور کرا دوں کہ بحثیت والدین
آپ کو کیسے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا ہے. آپ سب سمجھ دار ہیں. ایسی برائیوں
کی روک تھام کے طریقے بھی آپکو بخوبی پتا ہیں بس اب عمل کرنے کا وقت ہے اور
اگر آنکھیں بند رکھیں تو یقین کیجئے ہمیں ہماری پریوں جیسی بیٹیوں کی لاشیں
کوڑے کے ڈھیر پر روز ملتی رہیں گی۔
|