قیادت کرنے والوں کو مسیحائی کا دعویٰ تھا
کسی نے لیکن اب تک قوم کی بیڑی نہیں کاٹی
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
انہیں اقوام کے رحم و کرم پر اب بھی جیتے ہیں
غرور حریت نے جن سے حاصل کی تھی آزادی
شاعر : شامی ردولوی
میرے پاکستانیو! اسلامُ علیکم!
آج اقبال کے کچھ شاہین کہہ رہے ہیں کہ ہم آزاد ہیں
ہم سے مراد ملک میں رہنے والا ہر بے شعور اور ذی شعور فرد ہے۔
یہاں لفظ ہم سے مراد وہ مزدور غریب طبقہ بھی تو ہے کہ جو تپتی دھوپ میں
اپنے کمزور جسم پر بوڑھی ہڈیوں سے زیادہ وزن اٹھاتا ہے یہاں ہم سے مراد
سڑکوں پہ مارا مارا پھرنے والے لوگ بھی تو ہیں کہ جنہیں کوئی پوچھنے والا
نہیں ہے، یہاں ہم سے مراد میرے پشتون بھی تو ہیں کہ جن کی معصوم جانیں انا
کی تسکین کے لیے بم دھماکوں کی نظر کردی جاتی ہیں، یہاں ہم سے مراد میرے
وطن کے وہ معصوم سکول جانے والے بچے بھی تو ہیں کہ جن کا لہو اپنے مفادات
کی جنگ میں بہا دیا جاتا ہے، یہاں ہم سے مراد میرے وطن کی بیٹیاں بھی تو
ہیں کہ جن کے پردے کا تقدس بھرے بازاروں میں پامال کیا جاتا ہے، یہاں ہم سے
مراد کچی بستیوں میں بسنے والے غرباء بھی تو ہیں کہ جن کی اولادوں کو ڈکیت
ہیرا منڈی میں جاکر بیچ آتے ہیں اور یہاں ہم سے مراد ہم 22 کروڑ ہیں کہ جن
کے دکھ اور تکلیف اگر آپ اور میں سنیں تو ہمارے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں۔
اررے نہیں ہم تو غلام قوم ہیں آزادی کی بات ذہن میں بھی لائیں تو انجام
ارشد شریف جیسا ہوگا،
اررے جسے تم عبرت کا نشان بنانے چلے تھے وہ تو اپنے لہو سے شعور کی شمع جلا
گیا، اور تم ہماری آزادی چھینے والے بزدل بونے، آج بھی أس کی آواز سے لرزتے
ہو۔۔۔اور وہ۔۔۔وہ اب ہم سب میں بولتا ہیں! وہ تو امر ہوگیا اور تم۔۔۔۔
آزادی سے مراد تو بے خوف لیکن ہم تو خوف کی چھت تلے سانسیں لے رہے ہیں
آزادی سے مراد دخل اندازی سے پاک لیکن آج بھی غیر ملکی طاقتیں ہمارے ملک کے
فیصلے کرتی ہیں
آزادی سے مراد کسی کے زیرِ تسلط نہ ہونا مگر آج بھی ہم لٹیروں کے جابروں کے
یزیدوں کے تابع ہوکر زندگی گزار رہے ہیں۔
اررے یہ کیسی آزادی ہے کہ سر پر خوف کا سایہ ہو۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ ملک
کا حاکم کشکول لیے ملکی سالمیت کا سودا غیروں کے سامنے کرے۔
لیکن ہم نے تو صرف آزادی آزادی کھیلنا ہے۔۔
منتقی اعتبار سے یہ قرارداد اسی وقت مسترد ہوتی ہے کہ ہم آزاد ہیں۔
قرار داد میں لفظ "آزاد " بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے
کیونکہ آزاد تو آج صرف وہ حکمران ہیں جو اپنے پروٹوکول کی خاطر نو سالہ بچی
کو اپنی گاڑی تلے روند کر چلے جاتے ہیں آزاد تو صرف اور صرف وہ حکمران ہیں
جو یہاں کا پیسہ لوٹ کر باہر کمپنیاں بناتے ہیں اور پھر اس ملک میں اُن کے
اگینسٹ جانے والا کوئی قانون بھی نافذ نہیں ہوتا، میں تو کہتی ہوں کہ اس
ملک کے دو ٹکرے کردیجیے
آپ اپنے امیر طبقے کی آزادی کا جشن منائیں میں اپنے غریب طبقے کی بربادی کا
سوگ مناتی ہوں
کیونکہ ہم آج بھی غلام قوم ہیں!
جس ملک کا نظام غیر ملکی طاقتیں تخلیق کریں۔ عام آدمی کو آئی ایم ایف کے
اشارے پر مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا جائے، تو میں یہ کیسے کہوں کہ
ہم آزاد ہیں۔ جس ملک میں شراب کی بوتل کو شہد کی بوتل ثابت کردیا جائے اور
وقت کا قاضی اُن کی ایک ایک کرتوت جانتے ہوئے خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہو،
جس ملک میں حکمرانوں کی عیاشیاں کم کرنے کی بجائے ٹیکسوں کا بوجھ عوام ہی
پر ڈال دیا جائے۔
تو آفرین ہے ایسی آزادی پر اور آفرین ہے ہم پر جو ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم
آزاد ہیں آج سے تہتر سال پہلے ایک قوم ایک آواز اور ایک سبز ہلالی پرچم کے
ساتھ ایک سر زمیں کا مطالبہ کررہی تھی آج تہتر سال کے بعد وہی سر زمین تم
سے ایک قوم کا مطالبہ کررہی ہے أسے ایک متحد قوم دے دو ایک آزاد قوم دے دو
پھر فخر سے کہنا کہ ہاں ہم آزاد ہیں!
اگر ہم ذہنی غلام نہ ہوتے تو ان فضول جلسے جلوسوں کی بجائے اپنے حقوق کے
لیے نکلتے۔
قائد اعظم نے فرمایا تھا ملک بنانے میں جتنی قربانیاں دیں ملک کو سنبھالنے
میں أس سے زیادہ قربانیاں دینی پڑیں گی
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تو سنتی آئی ہوں کہ ہم آزاد قوم ہیں لیکن جب
شعور کی سرحد کو پھلانگا تو سمجھ میں آیا کہ ہم تو غلام قوم ہیں، لیکن پھر
بھی اپنے آقا کا نام بیچتے ہیں۔ اپنی ماں جیسی دھرتی کے ارماں بیچتے ہیں
ضمیر چھین کر انسان بیچتے ہیں۔ دعوےدار تو ہیں کہ ہم مسلمان ہیں مگر جھوٹ
بول کر قرآن بیچتے ہیں۔
اور آزادی کے نام پر فقط آزادی کے عنوان بیچتے ہیں۔
اور افسوس صد افسوس کہ اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں۔
(آخر میں ایاز شیخ صاحب کے بہترین اشعار)
میرے دیدہ ورو! میرے دانش ورو!
اپنی تحریر سے، اپنی تقدیر کو، نقش کرتے چلو۔۔
تھام لو اک دم یہ عصائے قلم!
ایک فرعون کیا لاکھ فرعون ہوں۔۔
ڈوب ہی جائیں گے ڈوب ہی جائیں گے!!
پاکستان زندہ باد!
-ماہم اعوان
|