زنجیریں، بلندو بالا دیواریں،قیدِ تنہائی،اذیتیں
،سزائیں،فصیلیں اور زندان انسانی عزم کو کبھی شکست نہیں دے سکتے کیونکہ
انسان کے اندر ایک اور دنیا بھی ہوتی ہے جو اس کو سچ کی خاطر سینہ سپر ہونے
کا عزم عطا کرتی ہے۔یہ جو سب کچھ ظاہری دنیا میں نظر آتا ہے دل کی دنیا کے
سامنے بالکل بے اثر بے وقعت اور بے وقعت ہو جاتا ہے کیونکہ انسانی دل کے
اندر ایک ایسی د نیاہوتی ہے جو کہ انسان کی حقیقی دنیا ہوتی ہے اور اس کے
سارے فیصلے اسی دنیا سے صادر ہوتے ہیں۔ دل جتنا شفاف ہو گا دنیا کا عکس بھی
اتنا ہی واضح اور دلکش ہو گا ۔دل کے آئینے میں سچ کا عکس واضح ہو جائے تو
پھر حکمرانوں کا خو ف خود بخود ہی ہوا ہو جاتا ہے۔ جن کا دل سچائی کی
آماجگاہ ہوتا ہے انھیں ایسے مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں جھنیں ہماری دنیا
دار نگاہیں دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ ( فصیل ِ دل کے آئینے میں سب دکھائی
دیتا ہے۔،۔اک نالہ ِ جبرو کراہ ہر سو سنائی دیتا ہے)۔،۔(اب کرن کے قتل سے
روکو اپنے ہاتھوں کو ۔۔اک ہجومِ بے کراں دل سے دہائی دیتا ہے)۔انسان حقیقی
دنیا کی سوچ پر عمل پیرا ہو جائے تو اس کی ذات سے خوف، ہزیمت اور ڈر کے
سارے بادل چشمِ زدن میں چھٹ جاتے ہیں۔یہ داخلی دنیا کسی بھی انسان کو جرات
و ہمت سے نوازتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے انسان اس داخلی دنیا
کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ۔ ہمیں تو اپنے ذاتی مفادات اور اغر اض و مقاصد
سے ہی فرصت نہیں ملتی دل کی دنیا کی دستک کو کیسے سنا جائے گا؟؟۔دل کی دنیا
آزاد منش انسانوں کی دنیا ہوتی ہے۔وہ جو اپنی آزادی اور خودی سے جیتے کی
ٹھان لیتے ہیں شہنشاہ ِ وقت خود ان کے در پر جھک جاتا ہے ۔خودی کے حاملین
کی دہلیز پر سجدہ ریزی شہنشاہوں کی مجبوری بن جاتی ہے۔(لوہے کی زنجیروں کو
جس نے ہنس کر چوم لیا۔۔موت کی چوکھٹ کا پتھر اس پہ کب پھر بھاری ہے )۔۔آؤ
اک دن جان کی بازی ہم بھی کھیلیں شان ؔ۔۔جاں کی بازی جاں کی بازی یہ بھلا
کب ہاری ہے )۔میں کوئی افسانوی بات حو الہِ قلم نہیں کر رہا بلکہ مجھے میرے
مشاہدے نے ایسے کئی مناظر دکھائے ہیں جہاں خوداری کے سامنے شہنشاہوں کی
شاہی ہیچ ہو جاتی ہے۔ وہ جلا وطنی پر مجبور ہو جاتے ہیں اور خدا کی زمین ان
پر تنگ ہو جاتی ہے(دل کی دنیا میں نے پایا میں نے افرنگی کا راج۔،۔ دل کی
دنیا میں نے دیکھے میں نے شیخ و برہمن)دل کی دنیا بڑی اجلی ، پاکیزہ اور پر
نور ہوتی ہے جو اپنی طہارت سے چہار سو روشن کر دیتی ہے۔جرات و بہادری اور
بے خو فی کے سارے سوتے اسی دل کی دنیا کے مرہونِ منت ہو تے ہیں ۔ ظاہر بین
انسان دنیاوی جاہ و جلال اور ریاستی جبر کے نام سے گھبرا جاتے ہیں ،ان کی
پیشانیاں عرق آلود ہو جاتی ہیں ،خوف کے بادل انھیں پژ مردہ کر دیتے ہیں
لیکن وہ جو دل کی آواز سنتے ہیں اور اپنی دھڑکنوں میں انسانیت کا درد محسوس
کرتے ہیں وہ ایسی جبرو کراہ میں آلودہ آوازوں کو سرِ عام للکارتے ہیں۔انھیں
نہ تو موت کا خوف ہو تا ہے اور نہ ہی حرصِ مال و دولت(سچ کی خاطر زہر پیالہ
سب کے بس کی بات نہیں۔دل والوں کی دنیا میں جاں کی کوئی اوقات نہیں)۔۔(اپنے
لہو کی سرخی سے عشق کے دیپ جلانے والو ۔ جس کے بطن میں سحر نہ ہو ایسی تو
کوئی رات نہیں)دنیا دار سزا کے خوف سے سہم جاتے ہیں لیکن وہ جو حریتِ فکر
کے داعی ہوتے ہیں وہ حق و صداقت کی آواز کو مزید بلند کرتے جاتے ہیں اور
یوں معاشرتی تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی جاتی ہے۔کام تو یہ بڑا کٹھن ہوتا ہے
لیکن اسے صرف وہی سر انجام دے سکتے ہیں جن کے دل کی دنیا سودو زیاں کی فکر
سے بلند ہو تی ہے۔(بر تر از اندیشہ ِ سود و زیاں ہے زندگی۔۔ ہے کبھی جاں
اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی)۔۔ (تو اسے پیمانہ ِ امر و فردا سے نہ ماپ۔۔
جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی )۔،۔
ویسے تو واحدت الوجود والے اس پوری کائنات کو ہی تمثیلی اور ظل مانتے
ہیں۔ان کے نزدیک حقیقی دنیا عرش پر قائم ہے ۔وہ دنیا جس کا ہم روز مشاہدہ
کرتے ہیں اس حقیقی دنیا کا عکس ہے ۔اسے حقیقی تصور کرنا مالکِ کون و مکاں
کے احکامات سے سرتابی کے مترادف ہے۔یہ تو ایک فلسفیانہ بحث ہے جس نے
افلاطون جیسے عظیم فکر کے ذہنِ نا رسا سے جنم لیا اور پھر دھیرے دھیرے پوری
دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی ۔ ہندو مت کا نظریہ ہو یا آتش پرستوں کی مذہبی
فکر ہو سارے اسی نظریہ کے گرد محوِ رقص ہیں۔ہندو مت نے تو اپنی اسی فکر پر
آوا گون (نظریہ تناسخ ) کا اچھوتا نظریہ پیش کیا اور انسانیت کو سات جنموں
کا ایک ایسا گول چکر عطا کیا جو اس کی موت کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے
تا کہ وقتیکہ اس کی روح کو مکتی نہ مل جائے۔یہ مکتی سات جنموں کے بعد اس کا
مقدر بنتی ہے ۔ویسے عجیب اتفاق ہے کہ سات کا ہندسہ انسانی زندگی میں
انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اسلام ایک نئی سوچ اور نئی فکر کے ساتھ منظرِ عام
پر آیا جس میں انسانی تکریم ، مساوات اور عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل
ہے۔یہ انسان کو ایک ہی جنم کی نوید سناتا ہے اور سات جنموں کی تردید کرتا
ہے۔ہر انسان کے اعمال اس کی نجا ت کا پیمانہ ہیں۔ اس پیمانہ کا حصو ل کیسے
ممکن ہو سکتا ہے اس کیلئے الہامی قوانین کا ایک عظیم سلسلہ ہے۔جو انسان بھی
ان خدائی قوانین کی پیروی کرتا ہے عرش والے کے قریب ہوتا چلا جاتاہے۔طہارت
و پاکیزگی اور بلند پروازی کا سادہ سا اصول ہر جگہ کارفرما ہے جو انسانوں
کے مدارج میں اضافہ کا باعث بن جاتا ہے۔دین جب مذہب میں تبدیل ہونا شروع
ہوا تو پھر بہت سے غیر پسندیدہ نظریات اس کے نام کے ساتھ نتھی کر دئے گے جس
سے انسان اپنی اصلی ڈگر سے ہٹ گیا۔(رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی )
والی سوچ جب معیارِ حق و باطل قرار پائے گی تو پھر اعمال کا خا نہ خالی رہ
جائے گا۔خلوصِ نیت ،سچائی ِ اور حق و صداقت کا دامن چھوڑ کر انسانی افکار
کی خود تراشیدہ راہ کی پیروی کا اذن کر لیا جائے تو پھر مدارج کی خواہش محض
حواہش ہی رہ جاتی ہے۔یہ جو آج کا انسان غلط راہوں میں بھٹک رہا ہے تو اس
میں ان انسانی نظریات کی آمیزش کا بڑا حصہ ہے جھنیں انسانوں نے ذاتی مفادات
کی خاطر اسلام کے دامن میں سجا رکھا ہے ۔یہ آمیزش اتنی قوی اور مضبوط ہے کہ
اس سے سرِ مو انحراف انسان کو دائرہِ اسلام سے خارج کر سکتا ہے۔مذاہب کی
تاریخ میں ہر مذہب کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے لہذا اسلام کے ساتھ اگر ایسا ہوا
ہے کہ تو اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں ہے۔ہمارے ہاں تو مختلف فرقوں میں
اتنا اختلاف ہے کہ وہ ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں
ہوتے ۔ہر وہ انسان جو کسی مخصوص فرقہ کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا ،گمراہ
اور راہ گم گشتہ تصور کیا جا تا ہے لہذا اس کا قتل جائز ٹھہرتا ہے۔اس طرح
کی سطح سوچوں نے انسان سے امن و سکون کے ساتھ ساتھ حق و صداقت کی وہ ڈگر
بھی چھین لی ہے جو اسے اﷲ تعالی کی جانب سے عطا ہو ئی تھی۔اس لئے ضروری ہے
کہ درِ دل کو کشادہ کیا جائے اور اس خدا ئی پیغام کا سراغ لگایا جائے جس
میں پوری انسانیت کی فلاح اور آسود گی مضمر ہے ۔آمریت کو للکارنے والے اور
ظلم و ستم کی آہنی زنجیر وں کو توڑنے والے ہی تاریخ کے مصور قرار پاتے ہیں
اور یہ تبھی ممکن ہے جب دل کا چراغ روشن ہو ۔ دل کا چراغ خونِ جگر سے روشن
ہو تا ہے لیکن خونِ جگرتو کب کا قصہِ پارینہ بن چکا ہے۔اب تو خونِ جگر کی
ترکیب بھی متروک ہوتی جا رہی ہے لیکن دل والے اب بھی خونِ جگر سے ہی کائنات
کو فتح کرتے ہیں۔(نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر ۔۔ نغمہ ہے سودائے
خام خونِ جگر کے بغیر ) ۔،۔
|