ڈی ایس اوز کی مجبوریاں اور مشکلات


ضلع میں سب سے کم زور ترین گریڈ سترہ کا اہلکار ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر ہوتاہے لیکن پتہ نہیں کیوں میڈیا سے وابستہ افراد انہیں نشانہ بنائے رکھتے ہیں حالانکہ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کھیلوں کی سرگرمیاں اپنی حد تک جاری رکھیں- دیر سویر بھی ہو جاتی ہیں لیکن یہ دیر سویر بھی ڈپٹی کمشنر کے دفتر سمیت فنانس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ہو جاتی ہیں ہمارے لئے ہر ایک خوش کرنا بہت مشکل ہو تا ہے ، صحافیوں کو خوش رکھنا بھی بڑا عذاب ہے آپ لوگ تو صرف لکھ لیتے ہیں یا سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں بھگتنا ہمیں پڑتی ہیں.یہ وہ چند گزارشات ہیں جومختلف اضلاع کے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز نے راقم سے ملاقات میں کی ، ان کے بقول راقم کھیلوں کے حوالے سے لکھتا ہے لیکن کچھ چیزیں لکھنے کی نہیں ہوتی ، کچھ چیزیں چھپائی جاتی ہیں لیکن راقم ان چیزوں کو بھی سامنے لاتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.

سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام صوبے کے پینتیس اضلاع میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر تعینات ہیں جوبنیادی طورپر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین ہوتے ہیں جبکہ ان کے زیر انتظام ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس ہوتاہے جس میں مختلف کیٹگریز بشمول کوچ ، گراﺅنڈ مین ، کلرک ، چوکیدار اور دیگر ملازمین کام کرتے ہیں ، ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کابنیادی کام نوجوانوں کیلئے کھیلوں کی سرگرمیوں کا انعقاد کرنا ہے اور کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی ہے ، جس کیلئے بیشتر فنڈز ڈسٹرکٹ گورنمنٹ جاری کرتی ہیں ، اور یہ سہ ماہی بنیادوں پر جاری ہوتی ہے کوارٹرز کی بنیاد پر جاری ہونیوالے اس فنڈز میں کھیلوں کی مختلف سرگرمیاں ارینج کرنا ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کی ذمہ داری ہے.

ان میں بعض ایسے ڈسٹرکٹ آفیسرز ہیں جو سیاسی طورپر مضبوط ہیں قبل ازیںڈسٹرکٹ سپورٹس آفس میں مختلف کھیلوں سے وابستہ افراد ڈیپوٹیشن پر آتے تھے جس کی بنیادی وجہ ان کی کھیلوں سے وابستگی ہوتی تھی لیکن اب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے نئی بھرتیاں کی ہیں جس کیلئے باقاعدہ امتحان دیکر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کا انتخاب کیا گیا جنہیں بنادی ٹریننگ بھی دی گئی اور اب مختلف اضلاع میں ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں.سال 2018 کی صوبائی سپورٹس پالیسی کے مطابق ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کا کام نہ صرف کھیلوں کی سرگرمیوں کیلئے کوششیں کرنا ہے بلکہ متوازی ایسوسی ایشن کے خاتمے سمیت کلبوں کی رجسٹریشن بھی ان کی ڈیوٹی بھی شامل ہیں اسی طرح کھیلوں کی ایسوسی ایشن کی ویریفیکیشن اور انتخابات کی نگرانی بھی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں - لیکن اس میں بعض بعض اوقات ایسوسی ایشن کے مضبوط افراد کی وجہ سے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کو آنکھیں بند کرنی پڑتی ہے اسی طرح کلبوں کی رجسٹریشن کے معاملے میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز مکمل طور پر ناکام ہیں ان میں صوبائی دارالحکومت پشاور بھی شامل ہیں حالانکہ کلبوں کی رجسٹریشن کے باعث ان کیلئے ریونیو کا ایک سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے لیکن سستی کہیے یا نااہلی اس طرح پیتیس اضلاع میںکوئی بھی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز اس حوالے سے کام نہیں کررہا.

ضلع کی سطح پر کام کرنے والے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ انہیں جو درپیش ہوتا ہے وہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے فنڈز کی ریلیز ہے جس کیلئے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کو ہر دوسرے دن اپنے متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جانا پڑتاہے ان سے بات کرنی پڑتی ہے پروپوزل دینی پڑتی ہے کہ متعلقہ جگہ پر کھیلوں کے مقابلے کروانے ہیں جس کیلئے فنڈز کا اجراءچاہئیے ، لیکن چونکہ یہ پاکستان ہے اس لئے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بھی "بغیر خرچہ پانی "کے کھیلوں کیلئے فنڈز ریلیز نہیں ہوتا . وہاں سے فنڈز ملنے کے بعد کھیلوں کی سرگرمیوں کا انعقاد بھی بڑا عذاب ہے - اکاﺅنٹ آفس میں بھی پانچ فیصد دینالازمی ہے ، اسی طرح ٹیکسوں کی بھر مار ہے جو چیز بھی خریدنی ہے اس پر پچیس فیصد ٹیکس ادا کرناہوتا ہے اب اگر ایونٹ دو لاکھ کا ہو اوراس میں ٹیکس بھی شامل کرلیا جائے تو ڈھائی لاکھ تک چلے جاتے ہیں پھر لوگ کہتے ہیں کہ ڈی ایس او نے " پیسے مارے ہیں"حالانکہ ٹیکسوں کی وجہ سے ہمیں مشکلات درپیش ہوتی ہیں.کبھی کبھار سیاسی لوگ ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک رابطے کرلیتے ہیں جہاں سے ہمیں حکم مل جاتا ہے کہ فلاں جگہ پر مقابلے کروانے ہیں ، اسی طرح کبھی کبھار ایسے احکامات آجاتے ہیں کہ متعلقہ افراد کو فنڈز جاری کریں حالانکہ ہم نے وہ مقابلے نہیں کروائے ہوتے ، لیکن سیاسی بنیادوں پر آنیوالے ضلعی حکومتوں کے لوگوں کو خوش کرنا بھی ہماری مجبوری ہے اگر یہ نہ کریں تو پھر ہمارے لئے نوکری کرنا مشکل ہوتا ہے.

صوبے کے مختلف اضلاع میں کام کرنے والے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کے مطابق بعض اضلاع میں ممبران اسمبلی اپنے علاقے میں جا کر نجی سطح پر کھیلے جانیوالے ٹورنامنٹ میں مہمان خصوصی بن کر فنڈز دینے کا اعلان کرتے ہیں جنہیں ایڈجسٹ کرنا بھی پڑتا ہے حالانکہ نہ ہمیں اس بارے میں مکمل معلومات ہوتی ہیں اور اگر یہ فنڈز بھی جاری نہ کریں تو پھر سیاسی اپروچز ہو جاتی ہیں اور ہم ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز مجبوری میں ایسے کام کرتے ہیں اگر یہ نہ کریں تو پھر ہمارے لئے ٹرانسفر آرڈر تیار رہتے ہیں.ان ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کے مطابق اگر حکومت میں بیٹھے ممبران اسمبلی کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہو تو پھر مختلف پارٹیاں ہماری شکایات کرتی ہیں ، اس کی بڑی مثال حال ہی میںصوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ہونیوالی ایک بڑی ٹرانسفر ہے جس کے بارے میں ہم بطور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر نے ممبر اسمبلی کو یہ کہہ کر فنڈز دینے سے معذرت کرلی کہ ہمارے پاس اتنے فنڈز نہیں کہ آپکے احکامات پر کسی کو رقم دیں جس کے نتیجے میں اسے ضلع بدر ہونا پڑا.

ان ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کے مطابق بعض جگہوں پر ریجنل سپورٹس آفیسرز بھی تعینات کئے گئے ہیں حالانکہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کے ہوتے ہوئے آر ایس او کی تعیناتی کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ فنڈز تو مخصوص ہوتا ہے اب اگر فنڈز ڈی ایس او کو ملے گا تو پھر آر ایس او کیا کرے گا لیکن اس بارے میں ہم کچھ کہ بھی نہیں کہ سکتے کیونکہ ان کا گریڈ بھی ہم سے زیادہ ہے اور ویسے بھی بڑے گریڈ کے افسر کا بڑا نشہ ہوتا ہے جو ڈی ایس او جیسے کمزور سپورٹس آفیسرز کو برداشت کرنا پڑتا ہے.اور ویسے حقیقت میں ایک ضلع میں ایک گریڈ سترہ کا اور ایک گریڈ اٹھارہ کا کھیلوں کا افسر ہونا بھی عجیب ہے جس کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا ہے لیکن نہ جانے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ اس معاملے میں کیوں خاموش ہیں.

سیاسی لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمیں کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز سے وابستہ افراد کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں حالانکہ اگر کوئی ایسوسی ایشن کھیلوں کی بناتا ہے تو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ کلبوں کی رجسٹریشن کرے اور پھر کھیلوں سے وابستہ افراد کو اپنے ایسوسی ایشن میں لائے لیکن یہاں پر بھی الٹی گنگا بہہ رہی ہیں ان سے کوئی پوچھ نہیں سکتا ، اسی طرح کھیلوں کیلئے سپانسرشپ ڈھونڈ کرنا لانا ان کی ذمہ داری ہے لیکن یہ لوگ ہمارے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس میں آتے ہیں اور ہم سے ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ فلاں جگہ پر ٹورنامنٹ کیلئے جانا ہے ہمیں فنڈز دئیے جائیں اب ہمارے پاس اتنا فنڈ ز تو نہیں ہوتا کہ انہیں دیں حالانکہ انہیں فنڈز دینا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی ذمہ داری ہے جو کہ گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں ہوتا ہے لیکن اگر ہم بحیثیت دسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کے انہیں ادائیگی نہ کریں تو پھرسیاسی رابطے کرکے ہمیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہیں اور یہ سب کچھ "آف دی ریکارڈ"ہمیں ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے ، حالانکہ آڈٹ میں ہم خوار ہوتے ہیں . اور ہمیں ان چیزوں کا سامنا کرنا پڑتاہے.

سب سے آخر میں جو اہم نکتہ ہے اور وہ صحافیوں کا ہوتا ہے ٹھیک ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ صحافیوں کو ان کے متعلقہ اداروں سے اتنی ادائیگی نہیں ہوتی لیکن کبھی کبھار صحافی اپنی کوریج کی اتنی ڈیمانڈ کرتے ہیں جنہیں ہم ایڈجسٹ بھی نہیں کرسکتے اور اگر انہیں "خوش نہ رکھیں"تو پھر یہ صحافی مختلف فورمز میں ہمیں نشانہ بناتے ہیں .جو ہمارے لئے مزید مسائل پیدا کرتے ہیں. اس لئے ضلع کی سطح پر کام کرنے والے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے لکھا کریں تو ہمیں بھی خوشی ہوگی اسی طرح ہماری مشکلات بھی اپنے متعلقہ فورم میں لائیں تاکہ ہمارے لئے بھی آسانیاں پیدا ہو.

صوبے کے ان ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کے ان مسائل کی نشاندہی بطور صحافی ہم نے کردی ان میں کتنی سچائی ہے اور اس سے ان کو کتنی آسانیاں مل سکتی ہیں یہ توآنیوالا وقت بتائے گا لیکن یہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مختلف اضلاع میں تعینات ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کی دہائی ہے
#kikxnow #digitalcreator #sportsnews #mojo #mojosports #kpk #kpsports #pakistan #dso #directorate
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 649 Articles with 508003 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More