کھیلوں کی بہتری کیلئے اقدامات، ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کھیلوں کی صوبائی وزارت گذشتہ دس سالوں سے کیا کررہی ہیں ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے خیبرپختونخواہ میں آنے کے بعد ضم اضلاع کے سپورٹس میں کتنی بہتری آئی ہیں اسی طرح ضم اضلاع سے قبل جن اضلاع میں جو کھیل مقبول تھے اس وقت وہ کھیل کس پوزیشن میں ہیں کیا اس کے کھیلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آرہی ہیں اسی طرح ان اضلاع میں سکولوں کے بچوں میں کھیلوں کے رجحان میں کمی آرہی ہیں یا پھر اس میں اضافہ ہوا ہے اور اگر کمی آرہی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہے، سہولیات نہیں یا پھر لوگ اپنے بچو ں کو کھیلوں کے میدانوں میں نہیں چھوڑ رہے، اسی باعث معاشرے میں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں، یہ وہ چند سوالات ہیں جو کھیلوں سے وابستہ ہر شخص خواہ وہ کسی ایسوسی ایشن سے وابستہ ہو یا کسی سرکاری ادارے سے، لیکن وہ ذمہ دار عہدے پر ہیں انہیں سوچنے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کھیلوں کے میدانوں میں سیاست گھس آنے کے باعث صرف کھیل کے میدان بربادہوگئے ہیں بلکہ کھلاڑیوں کو بھی مسائل کا سامنا ہے اسی طرح نت نئی ایجادات نے بھی نئی نسل کوگھر کی چار دیواری تک محدود کردیا، کسی زمانے میں وی سی آر کو شیطانی چرخہ کہنے والے اب وی سی آر کی شکل بھی بھول گئے ہیں لیکن موبائل فون کی ایجاد نے نہ صرف معاشرے میں بگاڑ پیدا کردی ہیں بلکہ اس کے باعث نوجوان نسل کھیلوں کے میدانوں سے دور ہوگئی ہیں جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.
خیبرپختونخواہ میں ستر کی دہائی میں کھیلوں سے وابستہ بچوں کو جو سکولوں میں کالجز میں پڑھتے تھے انہیں سکول کٹس، شوز کیساتھ ساتھ خوراک بھی ملا کرتی تھی اس وقت بھی کیسے ایسے فٹ بالرز موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ انہیں اپنے سکولنگ کے دوران کھیلوں کے انچارج اساتذہ صاحبان کی جانب کھیلوں کے پریکٹس کے بعد دودھ اور انڈے کھانے کیلئے دئیے جاتے تھے،اور یہی افراد تھے جنہوں نے اپنے متعلقہ کھیلوں کے شعبوں میں نام بھی پیدا کئے نہ صرف صوبائی، قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے برانڈ بن گئے. اسی طرح ان دنوں میں کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا تھا کہ کسی بچے کو کھیلوں کیلئے کٹس یا شوز مل جاتے تو پھر اس کی واپس لینے کا کوئی تصورنہیں تھا.ان دنوں کھیلوں سے وابستہ اساتذہ بھی کھیلوں کے شوقین ہوا کرتے تھے، گراؤنڈ میں آنے کے بعد نہ صرف خود ورزش کرتے بلکہ کھلاڑیوں سے بھی ورزش کرواتے تھے.
نوے کی دہائی میں تقریبا ہر سرکاری سکول میں فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، والی بال، بیڈمنٹن کی ٹیم ہوا کرتی تھی خواہ وہ لڑکوں کا سکول ہوا کرتا یا لڑکیوں کا، اس میں زیادہ تر آٹھویں سے دسویں کلاس تک کے بچے لئے جاتے ہیں کھیلوں کیلئے آنیوالے بچوں پر کھلانے کا تصور تقریبا ختم ہوگیا ہاں سکول و کالج میں کھیل کیلئے آنیوالے بچوں کو کٹس یا شوز ملا کرتے تھے لیکن مقابلوں کے اختتام کے بعد شوز یا کٹس واپس لینے کا سلسلہ سکول و کالجز کی انتظامیہ کی جانب سے شروع ہوگیا، آغاز سے ہی کھیلوں کے شعبے میں غریب والدین کے بچے آیا کرتے تھے تاکہ انہیں آگے آنے کا موقع مل سکے، اس وقت بھی کھیلوں کے شعبے میں روزگار کے مواقع بھی ہوا کرتے تھے مختلف ڈیپارٹمنٹ میں کھیلوں کی کارکردگی کی بنیاد پر نوکریاں ملا کرتی تھی، بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت سرکاری اداروں میں بھی کھیلوں کی بنیاد پر روزگار ملا کرتا تھااسی باعث اگر ایک طرف تعلیم حاصل کرنے والوں کی دیوانوں کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی تو پھر دوسری طرف کھیلوں کے میدان آباد کرنے والے بھی زیادہ تھے.
نوے کے دہائی کے بعد جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہوا وہاں پر کھیلوں کے شعبے میں بھی تبدیلیاں آتی گئی نت نئی ایجادا ت اور کھیلوں میں نئے لوگوں کی آمد زیادہ ہوتی گئی مردوں کیساتھ خواتین کھلاڑیوں کی تعداد میں امسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ سلسلہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پھیلا، لوگوں کی توجہ مزید کھیلوں کی جانب ہوتی گئی پاکستان میں بھی کھیلوں کے شعبے میں تبدیلیاں آئی، حکومتی ادارو ں نے انفراسٹرکچر پر توجہ دینا زیادہ شروع کردیا اسی طرح کھیلوں سے وابستہ اداروں میں ملازمت کے مواقع زیادہ آنے لگے اور یوں یہ ایک انڈسٹری بن گئی،
کھیلوں کے جوتوں کے مختلف برانڈز سمیت کٹس اور اداروں سے وابستہ کھلاڑی سفیر بنتے گئے، پیسوں کے ساتھ ساتھ شہرت بھی کھیلوں سے وابستہ افراد پر مہربان ہوتی گئی، خواہ وہ کھلاڑی ہوں، کوچز ہوں یا اس شعبے سے وابستہ صحافی ہوں، ان کے نام بنتے گئے اور اس شعبے میں پیسے کی ریل پیل نے سب کچھ تبدیل کردیا.جس کی وجہ سے کھلاڑی خواہ وہ مرد تھے یا خواتین، کسی بھی کھیل سے وابستہ ہونے کی بناء پر شہرت کا شکار ہوگئے اور اپنے فٹنس کے بجائے انہوں نے کپڑوں، ظاہری شا ن و شوکت پر توجہ دینا شروع کردی، اس مرض میں اگر چہ یورپی ممالک کے کھلاڑی و کوچز اتنے متاثر نہیں ہوئے لیکن پاکستان، بھارت سمیت مشرق وسطی کے کھلاڑی و کوچز کھیلوں کے میدان آباد کرنے کے بجائے " سرخی پاوڈر " کا شکارہوگئے جس کا ثبوت شوبز کی دنیا میں کھیلوں سے وابستہ افراد کی آمد تھی فلموں کے ہیرو سے لیکر آج کی موجودہ دور میں معمولی اشتہار میں آنے کیلئے کھلاڑی میک اپ کرتے نظر آتے ہیں.
یہی سے کھیلوں سے شعبے کی بربادی کا آغاز ہوا پاکستان خصوصا خیبرپختونخواہ میں کھیلوں کے میدان تو بن گئے لیکن ان میدانو ں میں سیاست ہونے لگی، جو ادارے کھیلوں کے فرو غ اور کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی کیلئے بنائے گئے تھے وہ کھلاڑیوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بننے لگے کھلاڑیوں کو سہولیات سکول و کالج سطح پر تو کیا ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر بھی کم ملنے لگی، جس کی جتنی اپروچ اتنی مراعات کی صورتحال نے کھیلوں کے شعبے کے شوقین افراد کو بد دل کردیا،دوسری طرف حکومتی پالیسیوں کے باعث ڈیپارٹمنٹ کے کھیل پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی او ر یوں کھیلوں کا شعبہ جس میں ایک دور میں تقریبا ہر ایک کھیل میں پاکستان کا کوئی نہ کوئی لیجنڈ کھلاڑی ہوا کرتا تھا اب زبوں حالی کا شکار ہے.
حکومتی سطح پر انفراسٹرکچر کی بہتر سہولیات کی کاوشوں کے باوجود کھیلوں کے میدان اس طرح آباد نہیں ہورہے،جو آج سے چالیس سال قبل کھیلوں کے میدان کا خاصہ ہوا کرتا تھا، مختلف کھیلوں میں لوگوں کی آمد زیادہ ہوا کرتی تھی جبکہ آج پورے پاکستان میں سوائے ایک کھیل کے بیشتر کھیلوں کی طرف اتنی توجہ ہے کہ تقاریر میں بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں ہمارا قومی یا فلاں کھیل ہمارا دیہی علاقوں کا پسندیدہ کھیل ہے لیکن اس کی پروموشن کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے رہے. نوجوان نسل منفی سرگرمیوں کی طرف جارہی ہیں، تخریبی سرگرمیاں نہ صرف پاکستان کے شہری علاقوں میں زیادہ ہوتی جارہی ہیں بلکہ دیہاتی علاقوں سمیت ہمارے قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کو ان مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے یوں نہ صرف ہم ہر تقریبا ہر کھیل میں پیچھے جارہے ہیں بلکہ ہماری نوجوان نسل کھیلوں کے شعبوں میں آنے کے بعد "شارٹ کٹ " راستے ڈھونڈنے کیلئے کوشاں ہے، ڈسپلن، برداشت، صبر،سپوٹس مین سپرٹ تقریبا ختم ہو کر رہ گئی ہیں.یہی وجہ ہے کہ نوجوان عام زندگی میں بھی منفی سرگرمیوں میں زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں.
ان تمام حالات کے پیش نظرکھیلوں کی بہتری اور نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنے اور پاکستان کا امیج بہتر بنانے کیلئے کھیلوں سے وابستہ تقریبا ہر شخص خواہ وہ صحافی ہوں، ایسوسی ایشن سے وابستہ ہوں، کوچ ہو، یا کسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے وابستہ معمولی ملازم، اسی طرح سکول و کالجز و ہائیر ایجوکیشن کے سطح پر کھیلوں کے ذمہ داران کہ وہ آنیوالے نسل کی بہترین رہنمائی کرے اور انہیں کھیلوں کی جانب راغب کرے، کھیلوں کے میدان آباد کرے بجائے اپنی سیاست، ذاتی مفاد خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہوں کو بالائے طاق رکھ کر نوجوان نسل کی بہتری کیلئے کوششیں کرنی ہونگی - صرف یہ سوچ کہ ہمارے اپنے بچے بہتر ہوں اور کھیلوں کے شعبے میں نمایاں پوزیشن حاصل ہوں، نہ صرف بہت سارے لیجنڈ کھلاڑیوں کے قد کو چھوٹا کر چکی ہیں بلکہ دوسروں کے بچوں کو پیچھا کرنے او ر اپنے اولاد کو آگے کرنے کی خواہش نے انہیں کم و بیش ہر جگہ پر پیشیمانی کا سامنا کرنا پڑ رہاہے.اسی طرح ضلع کی سطح پر کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرنے والے متعلقہ اضلاع کے ذمہ داران خواہ وہ ڈسٹرکٹ سطح پر کام کررہے ہیں یا صوبائی اداروں میں اچھی پوزیشن پر تعینات ہوں، انہیں کھیلوں کی بہتری اور کھیلوں کے میدانوں کو آباد کرنے کیلئے فوری اور لمبے عرصے کے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے.جس کیلئے انہیں صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک نوکری سے نکل کر چوبیس گھنٹے کام کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح سے نہ صرف کھیلوں کے میدان آباد ہو جائیں گے بلکہ اس سے ہماری نوجوان نسل مثبت سرگرمیوں کی طرف جاسکیں گی - ماضی میں کھیلوں کے شعبے میں خیبر پختونخواہ یا ضم اضلاع یا پاکستان کی سطح پر جو کچھ ہوا اسے بھول کر ایک نئے سر ے سے کھیلوں کے شعبے کو آباد کرنے کی ضرورت ہے.
#kikxnow #digitalcreator #sportwsnews #mojo #mojosprts #article #kpksports #sportindustry #game #kpksports
|