ارتقاءِ انسانی کی تیسری سیڑھی(حصہ سوم)
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
(پیٹر مین جزیرہ انٹارکٹک کی گوگل سے لی گئی تصویر) |
|
پہلی سیڑھی ایجاد( (Invention دوسری سیڑھی اسم دریافت ((Discovery اور اب تیسری سیڑھی فعل دریافت ((Explore میں" انٹارکٹیکا کی دریافت "کی باری ہے۔ انٹارکٹکا دنیا کا انتہائی جنوبی براعظم ہے، جہاں قطب جنوبی واقع ہے۔ یہ دنیا کا سرد ترین، خشک ترین اور ہوا دار ترین براعظم ہے جبکہ اس کی اوسط بلندی بھی تمام براعظموں سے زیادہ ہے۔ 14٫425 ملین مربع کلومیٹر کے ساتھ انٹارکٹکا ایشیا، افریقا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکاکے بعد دنیا کا پانچواں بڑا براعظم ہے۔ انٹارکٹکا 98 فیصد برف سے ڈھکا ہوا ہے جس کے باعث وہاں کوئی باقاعدہ و مستقل انسانی بستی نہیں۔ صرف سائنسی مقاصد کے لیے وہاں مختلف ممالک کے سائنس دان قیام پزیر ہیں۔ انٹارکٹکا میں تقریبا 2 ملین سالوں سے بارش نہیں ہوئی ہے، اس کے باوجود دنیا کے میٹھے پانی کے 80 فیصد ذخائر وہاں موجود ہیں، اگر یہ سب پگھل جاتے تو سمندری سطح کو ساٹھ میٹر (200 فٹ) تک بڑھا سکتے ہیں۔اس براعظم کو پہلی بار روسی جہاز راں میخائل لیزاریف اور فابیان گوٹلیب وون بیلنگشاسن نے 1820ء میں دیکھا۔ یہاں دن رات کی تقسیم چھ چھ ماہ ہے ۔ 1959ء میں 12 ممالک کے درمیان میں معاہدہ انٹارکٹک پر دستخط ہوئے، جس کی بدولت یہاں عسکری سرگرمیاں اور معدنیاتی کان کنی کرنے پر پابندی عائد کی گئی اور سائنسی تحقیق اور براعظم کی ماحولیات کی حفاظت کے کاموں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مختلف تحقیقی کام سر انجام دینے کے لیے دنیابھر سے انٹارکٹکا پہنچنے والے سائنسدانوں کی تعداد ہر سال موسم گرما میں 5،000 سے زائد ہوجاتی ہے، جبکہ موسم سرما میں یہ تعداد کم و بیش 1٬000 تک رہ جاتی ہے۔جو لوگ انٹارکٹیکا میں سفر کرتے ہیں یا رہتے ہیں وہ دو اہم گروہوں میں آتے ہیں، وہ لوگ جو سائنسی تحقیقی مراکز یا اڈوں پر رہتے اور کام کرتے ہیں، اور سیاح۔ انٹارکٹیکا میں کوئی بھی غیر معینہ مدت تک اس طرح نہیں رہتا جس طرح وہ باقی دنیا میں کرتے ہیں۔ اس کی کوئی تجارتی صنعتیں نہیں، کوئی قصبہ یا شہر نہیں، کوئی مستقل رہائشی نہیں۔ پاکستان نے مشرقی انٹارکٹیکا میں تحقیق کے لیے 1991ء میں ایک اسٹیشن قائم کیا جس کا نام جناح انٹارکٹیکا اسٹیشن ہے۔جناح انٹارکٹیکا اسٹیشن پاکستان کا انٹارکٹیکا پروگرام کے زیر انتظام ایک سائنسی تحقیقی اسٹیشن ہے۔ یہ اسٹیشن مشرقی انٹارکٹیکا کوئین مود لینڈ کا علاقہ جنوبی رونڈین پہاڑؤں میں واقع ہے۔ پاکستان نے "سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق" کے ساتھ انٹارکٹیکا میں تحقیق کے لیے 1991ء میں ایک معاہدہ کیا۔ یہ پروگرام پاکستان کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون سے "نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے محیطیات" نے شروع کیا۔ یہ پروگرام پاک بحریہ نے زیر انتظام شروع ہوا۔ 2005 میں، پاکستان ایئر فورس کے انجینئرز اور سائنسدانوں نے پاکستان کی طرف سے پروازوں کے لیے ایک چھوٹا سا رن وے اور نگرانی کے لیے ایک کنٹرول روم تعمیر کیا۔2010 میں پاکستان کی حکومت نے منصوبہ بندی کو بڑھانے کے لیے منظوری دے دی کہ جناح انٹارکٹیکا اسٹیشن کو مستقل آپریشنل بنایا جائے.
|