روز روز کے احتجاج اور ملکی معیشت

پاکستان میں اس وقت ایک ایسا سیاسی اور سماجی منظرنامہ تشکیل پا چکا ہے جس میں احتجاجات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں، شہریوں، اور حتیٰ کہ بعض اداروں کے احتجاجات نے ملک کی معیشت کو سنگین مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں، جن میں عوام اپنی مختلف نوعیت کی شکایات اور مطالبات پیش کرتے ہیں۔ یہ احتجاجات کبھی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہوتے ہیں تو کبھی معاشی حالات کے بگڑنے کی وجہ سے عوامی غصہ اور مایوسی کا اظہار۔ ان احتجاجات کا تسلسل ملکی معیشت پر بوجھ ڈال رہا ہے اور ملک کے اندرونی استحکام کو خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔

جب ایک ملک میں احتجاجات کا سلسلہ بڑھتا ہے اور ان میں شدت آتی ہے، تو یہ ملک کی معیشت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ احتجاجات کے دوران کاروبار بند ہوتے ہیں، سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھتا ہے، اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، بیرونی سرمایہ کار بھی غیر یقینی حالات کے باعث سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں، جس سے ملکی معیشت کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔ اس صورت حال کا سب سے برا اثر عوام پر پڑتا ہے، جو پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری، اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں۔احتجاج کیوں کرتے ہیں ان کی بات سنیں اگرچہ احتجاجات سے معیشت کو نقصان پہنچتا ہے، مگر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ احتجاج کسی بھی جمہوری معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ جب لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے اور ان کی آواز سنی نہیں جاتی، تو وہ احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ عوامی مسائل کو سمجھے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے، نہ کہ صرف احتجاج کرنے والوں کو نظرانداز کرے۔ اگر احتجاج کرنے والوں کی بات کو سنا نہ جائے، تو یہ نہ صرف ان کی ناامیدی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ معاشرتی اخلاقی اقدار پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔

اگر حکومت یا ریاست مسلسل عوامی احتجاجات کو نظرانداز کرتی ہے، تو اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ عوام کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس سے شہریوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے، جو کہ کسی بھی معاشرتی یا سیاسی استحکام کے لیے مضر ہے۔ اس کے علاوہ، جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں نکل رہا، تو وہ احتجاجات کی شکل میں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا حق سمجھتے ہیں، اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

یکساں انصاف اور ملکی استحکام پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یکساں انصاف کی فراہمی انتہائی اہم ہے۔ جب لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ عدلیہ اور حکومت ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے اور تمام شہریوں کو یکساں انصاف فراہم کیا جا رہا ہے، تو وہ نظام پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی ہے۔ جب تک انصاف کے دروازے سب کے لیے یکساں نہیں کھولے جاتے، اس وقت تک معاشرتی عدم مساوات اور سیاسی بے چینی کی صورت حال موجود رہے گی۔ یکساں انصاف کا مقصد یہ نہیں ہے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہر فرد کو اپنے حقوق حاصل ہوں اور کسی بھی شخص یا گروہ کو امتیازی سلوک کا سامنا نہ ہو۔

یکساں انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، عدلیہ اور دیگر ادارے اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کریں اور ہر فرد کو اپنے حقوق کے تحفظ کی مکمل یقین دہانی کرائیں۔ جب لوگوں کو یہ احساس ہوگا کہ ان کے ساتھ انصاف ہو رہا ہے، تو وہ احتجاجات کے بجائے قانونی طریقوں سے اپنے مسائل حل کرنے کو ترجیح دیں گے، اور یہ ایک مثبت معاشرتی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

پاکستان کی معیشت اور سماج کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نظام کو مستحکم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر فرد کو انصاف کی مکمل فراہمی ہو۔ احتجاجات اس وقت تک مسائل کا حل نہیں بن سکتے جب تک کہ عوامی آوازوں کو سنا نہ جائے اور ان کے مسائل کا بروقت حل نہ نکالا جائے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو اہمیت دیں، ان کی آواز سنیں، اور ملک میں یکساں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال معاشرہ تشکیل پا سکے۔

 

Saif Ali Adeel
About the Author: Saif Ali Adeel Read More Articles by Saif Ali Adeel: 20 Articles with 26625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.