میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں "
مثنوی روم " کی بدولت جو شہرت آپ علیہ الرحمہ کو ملی وہ شاید کسی اور کے
نصیب میں نہ تھی آپ علیہ الرحمہ نے اپنی اسی مثنوی کے ذریعے لوگوں کی جو
اصلاح کی ہے وہ ان ہی کا خاصہ ہے خوبصورت حکایتیں صحیح اور سچے اسباق کے
ساتھ جو دل پر بڑا گہرا اثر چھوڑتی ہیں جیسے ایک حکایت بیان کرتے ہوئے آپ
علیہ الرحمہ نے اپنی مثنوی میں لکھا ہے کہ ایک چیونٹی کے دل میں بیت اللہ
کی زیارت کا شوق پیدا ہوا لیکن ساتھ ہی اسے اپنے کمزور ہونے کا احساس ،
راستے کی تکالیف ، ہوائوں کا کبھی تیز کبھی آیستہ چلنا ، زمین کی جنبش ،
سمندر کے طوفانی موجوں کے تھپیڑے ، اور نہ جانے کیا کیا تکالیف اس کی نظروں
کے سامنے گھومنے لگیں جس کی وجہ سے وہ غمگین ہوکر خاموشی کے ساتھ بیٹھ گئی
اور اللہ تعالی سے کسی سبب کی دعا کرنے لگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دن اس چیونٹی کی نظر حرم شریف کے ایک
کبوتر پر پڑی جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی اور اس نے اسی وقت اس کبوتر سے
اپنے دل کا حال بیان کیا تو کبوتر پہلے تو اسے بغور دیکھنے لگا کچھ سوچنے
لگا اور پھر کہنے لگا ٹھیک ہے لیکن تمہیں میرے پائوں کو مظبوطی سے پکڑ کر
رکھنا ہوگا سفر لمبا بھی ہے اور خطرناک بھی تیز اور طوفانی ہوائوں کا سلسلہ
بھی ہمیں ملے گا اور تم ہو کمزور جسم کی مالک اس لئے تمہیں بڑی احتیاط
برتنی ہوگی تو چیونٹی نے کہا کہ سمجھ گئی میں ان شاءاللہ تمہارے پائوں کو
مظبوطی کے ساتھ پکڑلوں گی اس کے بعد چیونٹی اس کبوتر کے پائوں سے چمٹ گئی
اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے بیت اللہ کی زیارت کے لئے اس کے لئے حرم
شریف کے کبوتر کی شکل میں اسباب پیدا کیا اور پھر کبوتر نے اڑان بھری اور
آسمان پر اڑنے لگا راستے کی تمام تکالیف سے گزرتے ہوئے وہ کبوتر اپنی مخصوص
رفتار اور مخصوص جگہوں سے ہوتا ہوا بالآخر ایک دن وہ اس چیونٹی کو لیکر حرم
شریف میں داخل ہوگیا چیونٹی پورے سفر کے دوران کبوتر کی ہدایت پر عمل کرتی
رہی اور اس کے پائوں سے مظبوطی کے ساتھ چمٹی رہی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیا آپ جانتے ہیں کہ حرم شریف میں نظر آنے
والے کبوتر عام کبوتر نہیں ہیں ان کی نسب کے بارے میں ایک روایت یہ ملتی ہے
کہ یہ کبوتر اس نسل سے ہیں جنہوں نے غار ثور کے دھانے پر گھونسلہ بنایا تھا
یہ بہت خوبصورت شکل اور رنگ کے ہوتے ہیں ان کی گردن لمبی ہوتی ہے اور گردن
کے اطراف میں منفرد رنگ ہوتے ہیں اور یہ خصوصیات عام طور پر پائے جانے والے
کبوتر میں نہیں ہوتی اس بات کا یہاں ذکر کرنا اس لئے ضروری تھا کہ حضرت
مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کا اس حکایت میں یہ بتانا مقصود تھا کہ
جس طرح اللہ تعالیٰ نے چیونٹی کے دل کی بات سن کر اس کے لئے اس خاص کبوتر
کو ایک وسیلہ بناکر بھیجا اور جس سے نسبت قائم کرکے وہ چیونٹی بیت اللہ کی
زیارت پر پہنچی بالکل اسی طرح اس رب العالمین نے ہمارے درمیان بھی ایسے لوگ
پیدا کر رکھے ہیں کہ جن سے نسبت قائم کرکے ہم بھی اپنی منزل پر باآسانی
پہنچ سکتے ہیں اور اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں سے ان کی نسبت کی وجہ سے
چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ وہ لوگ بھی خاص لوگ ہیں اللہ تعالیٰ کے
مقرب اور محبوب لوگ ان خاص کبوتروں کی طرح ہی ہیں لہذہ اللہ تعالیٰ کے نیک
، مقرب اور محبوب لوگ جو اولیاء کرام اور بزرگان دین کی شکل میں ہمارے پاس
موجود ہیں ان سے نسبت قائم کرنا ہمارے لئے ضروری ہے کہ انہیں کسی چیز کا
خوف نہیں کسی کا ڈر نہیں کہ اللہ ان کے قریب ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن
مجید
کی سورہ یونس کی آیت 65 میں ارشاد فرمایا کہ اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ
اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
ترجمعہ کنزالایمان:
سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب یہ لوگ کون ہیں ؟ اور ان کی صفات کیا
ہیں تو دیکھئے اللہ کے مقرب ، محبوب اور ولی اللہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب
تعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنے رب کے علاوہ کسی سے امید
باندھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہر مشکل وقت میں صبر کرتے ہیں اور اپنا ہمدرد
صرف اپنے رب کو مانتے ہیں جو اللہ کے " کن " کہنے تک اپنا یقین مظبوط رکھتے
ہیں وہ لوگوں کی باتوں کو دل پر نہیں لیتے بس اپنے رب پر مکمل بھروسہ کرتے
ہیں یہ لوگ ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں کبھی ناشکری نہیں کرتے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہیں وہ لوگ جو اللہ کے مقرب اور محبوب
بندے ہوتے ہیں یعنی ولی اللہ اور جن کے ساتھ ہمیں اپنی نسبت قائم کرنے اور
اسے مظبوطی کے ساتھ تھامے رکھنے کی تلقین کی گئی ہے یاد رکھئےکہ نسبت ایک
عظیم حقیقت ہے نسبتوں کی وجہ سے بے قدر و قیمت چیزیں قیمتی ہوجاتی ہیں نسبت
کو ہمارے معاشرے میں بھی بڑی اہمیت حاصل ہے کہ بہت سے افراد کو لوگ صرف ان
کے باپ دادا کی نسبت سے پہچانتے ہیں دنیا کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں تو
ہمیں کئی عجائب گھر نظر آئیں گے جہاں مختلف تاریخی چیزوں کو محفوظ کرکے
رکھا ہوا ہے کیونکہ ان چیزوں کی کسی نہ کسی سے کوئی نسبت موجود ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی نسبت اور
صحبت میں رہنے کی وجہ سے ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اتنا بڑا مقام ملا
اور جو جو عورتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بیبیوں میں شامل ہوئیں
انہیں امت کی مائیں ہونے کا اعزاز ملا یہ نسبت کا فیض ہی ہے کہ حضرت یوسف
علیہ السلام کے جسم اطہر سے چھونے والی قمیض سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی
بینائی لوٹ آئی مُفَسِّرِ شَہِیر،حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی
رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نسبت کی اہمیت کو مزید اُجاگر کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:صفا اور مروہ وہ پہاڑ ہیں جن پر حضرت سَیِّدَتُنا ہاجِرہ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا پانی کی تلاش میں 7 بار چڑھیں او ر اُتریں۔اُس
اللہ والی کے قدم پڑجانے کی بر کت سے یہ دونوں پہاڑاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی
نشانی بن گئے اور قیامت تک حاجیوں پراس پاک بی بی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہَا کی نقل اُتارنے میں ان پر چڑھنا اور اُتر نا7 بار لازم ہوگیا۔
بزرگوں کے قدم لگ جانے سے وہ چیز اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نشانی بن گئی۔مقامِ
ابراہیم وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہوکر حضرت سَیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللہ
عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کعبۂ معظمہ کی
تعمیر کی، وہ بھی حضرت سَیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برکت سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نشانی
بن گیا اور اس کی تعظیم ایسی لازم ہوگئی کہ طواف کے نفل اس کے سامنے کھڑے
ہوکر پڑھنا سُنّت ہوگئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نسبت قائم کرنے کا سب سے بڑا ، آسان اور
عظیم طریقہ کسی صحیح العقیدہ اللہ کے خاص اور مقرب بندے کے ہاتھ میں اپنا
ہاتھ دیکر بیعت کرلینا ہے بیعت کرنے کی برکتیں اور اس کے فضائل پر بات کرنا
ایک الگ موضوع ہے اس پر میں پھر کبھی کوئی مضمون لیکر حاضر ہو جائوں گا
لیکن یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ بیعت کرکے اللہ کے مقرب بندے کے ہاتھ میں
ہاتھ دینے سے جو نسبت اور اس نسبت کا فیض حاصل ہوتا ہے وہ ہماری زندگی میں
بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سید ابوالحسن شاہ الگیلانی البغدادی نسبت
کے فیضان پر ایک واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک فقیر ایک دوکان پر
پہنچتا ہے اور دکاندار سے سوال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے ایک روپیہ دےدو
اگر نہیں دیا تو میں تمہاری پوری دوکان الٹ دوں گا اس پر اس دوکاندار نے
کہا کہ میں نہیں دوں گا جا تجھے جو کرنا ہے کرلے وہ بار بار ایک بات کرتا
کہ مجھے ایک روپیہ دے دو ورنہ تمہارا سارا کاروبار ختم ہو جائے گا اور
تمہاری دوکان الٹ جائے گی اس بحث کے دوران وہاں پر کافی لوگ جمع ہوگئے اتنے
میں وہاں سے ایک اللہ کے نیک بندے کا گزر ہوا وہاں کے لوگ انہیں ایک معزز
اور اللہ کے ولی کا درجہ دیتے تھے انہوں نے اس فقیر کو بغور دیکھا اور پھر
دوکاندار سے کہا کہ اسے کچھ دے دو ورنہ یہ واقعی تمہاری دوکان الٹ دے گا
ہوسکتا ہے کہ یہ تمہیں کوئی بددعا دے دے اور تمہارا پورا کاروبار تباہ ہو
جائے تو لوگوں نے ان سے عرض کیا کہ حضور یہ ایک جاہل اور انپڑھ شخص کسی کا
کیا بگاڑسکتا ہے اور اس کی بددعا سے کیا ہوگا تو ان نیک انسان نے فرمایا کہ
میں نے اس کے بارے میں بڑا غور کیا لیکن اس کے اندر مجھے کوئی خاص بات
محسوس نہیں ہوئی پھر میں نے اس کے پیرو مرشد کی طرف نظر دوڑائی تو مجھے
وہاں بھی کچھ نظر نہیں آیا لیکن اس کے پیرو مرشد کے جو پیرو مرشد ہیں وہ
اللہ کے انتہائی مقرب اور ولی صفت انسان تھے اور وہ اس وقت صرف دوکاندار کے
فیصلے کا انتظار کررہے ہیں کہ اگر وہ کچھ دیتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اس فقیر
کے کہنے پر اس کا کاروبار تباہ کرنے میں دیر نہیں کریں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نسبت کا فیض کیا ہوتا ہے اس مختصر سے واقعہ
سے سمجھ آگیا ہوگیا یعنی اس فقیر کی نسبت اپنے پیرو مرشد کے ساتھ اور ان کی
نسبت اپنے پیرو مرشد کے ساتھ گویا نسبتوں سے نسبت کا فیض اتنا طاقتور ہوتا
ہے کہ وہ اپنے مرید کی مدد کے لئے کہیں بھی کبھی بھی باآسانی پہنچ سکتے ہیں
یہ تو شخصی نسبت ہے جبکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ وہ اشیاء جن کی نسبت کسی
اللہ کے نبی ، صحابہ کرام ، اولیاء کرام اور ولی اللہ سے ہو وہ بھی آپ کو
فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ایسی اشیاء کا قرآن مجید میں بھی
ذکر ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جس نے اللہ کے حکم سے اژدھا بن
کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کی اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام
کی نسبت قربانی سے ہے کہ رہتی قیامت تک جب لوگ جانور ذبح کرکے قربانی کرتے
رہیں گے اس کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نےشاندار فتوحات پر " سیف اللہ" یعنی
اللہ کی تلوار کا لقب دیا تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بھی کسی معرکہ پر
تشریف لے جاتے تو اپنے سر پر ٹوپی ضرور پہنتے تھے اور ہمیشہ فتح کا جھنڈا
ہاتھ میں لیکر وآپس لوٹتے ایک دفعہ جنگ یرموک میں جب جنگ کا ماحول گرم تھا
تو یکایک حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ٹوپی کہیں گر گئی اور
گم ہوگئی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لڑائی چھوڑ کر ٹوپی کو ڈھونڈنے میں لگ گئے
لوگوں نے جب دیکھا کہ تیر اور پتھر برس رہے ہیں نیزہ اور کمان اپنا کام
کررہے ہیں موت سر پر منڈلا رہی ہے لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کو اپنی ٹوپی کی پڑی ہوئی ہے اور وہ اس کو ڈھونڈنے میں مصروف تھے تو
انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹوپی کو چھوڑئیے اور لڑائی شروع کیجئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
ان کی بات پر دھیان نہ دیا اور ٹوپی کی تلاش جاری رکھی بالآخر وہ ٹوپی
انہیں مل گئی تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ بھائیوں جنگ لڑنے اور
جیتنے میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ میں آج تک جتنی بھی جنگ جیتا ہوں وہ اس
ٹوپی کی بدولت ہی جیتا ہوں اس کی برکت ہے جب یہ میرے سر پر ہوتی ہے تو دشمن
میرے سامنے کچھ بھی نہیں اس لئے یہ ٹوپی میں ہمیشہ اپنے سر پر رکھتا ہوں تو
ساتھیوں نے کہا کہ آخر اس میں ایسی کیا بات ہے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے فرمایا کہ یہ دیکھو کیا ہے ؟ یہ میرے حضور ﷺ کے سر انور کے بال مبارک
ہیں جو میں نے اس ٹوپی میں سی رکھے ہیں میرے حضور ﷺ ایک دفعہ عمرہ کی سعادت
بجا لانے کے لئے بیت اللہ تشریف لائے اور جب سر کے بال اتروائے تو ہم میں
سے ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ وہ بال مبارک اسے مل جائیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں
نے بھی کوشش کی اور کچھ بال مبارک حاصل کرکے اسے ٹوپی میں سی لئے یہ ٹوپی
اس وقت سے میرے لئے برکات و فتوحات کا ذریعہ ہے اس ٹوپی کے صدقہ ہی میں ہر
جنگ میں فاتح بن کر لوٹتا ہوں اب تم لوگ ہی بتائو اگر یہ ٹوپی مجھے نہ ملتی
تو مجھے چین کہاں سے آتا ۔۔ (حجتہ اللہ علی العالمین686)
یہاں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ انبیاء کرام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان ،
اولیاء کرام اور بزرگان دین کے تبرکات کو اپنے پاس رکھنے اور ان کی تعظیم
کرنے سے فیض بھی حاصل ہوتا ہے اور برکات بھی کیونکہ ان تبرکات کی نسبت اللہ
کے ان خاص اور مقرب بندوں سے ہوتی ہے جنہیں اللہ رب العزت نے اپنا خاص اور
محبوب بندہ کہا ہے اس لئیے ایسے لوگوں سے نسبت ہم گناہگاروں کی بخشش کا
ذریعہ بھی ہوسکتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نسبت قائم کرنے یا نسبت سے جڑے رہنے کا ایک
فیض یہ بھی ہے کہ جب ہم کسی اللہ والے کی بات کو بغور سنتے اور سمجھنے کی
کوشش کرتے ہیں تو وہ بات براہ راست ہمارے دل و دماغ پر اثر کرتی یعنی دوسرے
معنوں میں آپ یہ سمجھ لیجیے کہ اگر اللہ کے کسی بندے کی کوئی بات دل پر اثر
کرے اور اس پر عمل کرنے کا دل کرے تو سمجھ لیجے کہ وہ کوئی عام انسان نہیں
بلکہ وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا کوئی مقرب اور محبوب بندہ ہوگا کوئی ولی
اللہ ہوگا اب دیکھئے جیسے ایک شخص جو ایک گلوکار تھا اور آپ کو تو معلوم ہے
کہ اسلام میں موسیقی سننے یا گانے کی سخت ممانعت کی گئی ہے لہذہ وہ شخص ہر
مولوی یا داڑھی والے نماز پڑھنے والے شخص سے نفرت کرتا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ اکثر مولویوں کو برا بھلا کہتا ہوا نظر
آتا تھا ایک دفعہ یوں ہی گزرتے ہوئے اس کا سامنا ایک مولوی سے ہوگیا بس
دیکھتے ہی اس کا پارہ چڑھ گیا اور اول فول بکنا شروع ہوگیا لیکن مولوی صاحب
خاموشی سے اسے دیکھتے رہے جب وہ اپنی بھڑاس نکال چکا اور بول بول کر تھک
گیا تو چپ ہوگیا پھر مولوی صاحب نے کہا تم گلوکاروں اور ان کے گائے جانے
والے گانوں سے بہت متاثر ہو ؟ تو اس نے کہا کہ ہاں لوگوں کو گانے سن کر بڑا
سکون ملتا ہے سارا دن اپنے کام کاج سے تھک کر جب وہ موسیقی سنتے ہیں تو ان
کی ساری تھکن دور ہوجاتی ہے جبکہ تم مولوی لوگ اسے ناجائز کہتے ہو ارے یہ
تو ہماری روزی کا ذریعہ ہے اس روزی سے ہم اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں
اس کی یہ بات سن کر مولوی صاحب نے بڑے صبرو تحمل سے ایک کاغذ کا ٹکڑا لیا
اور اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ بیٹا پھر ایک کام کرو اس کاغذ پر
لکھ دو کہ جب تمہارا انتقال ہوجائے تو تمہاری نماز جنازہ کوئی مولوی نہیں
بلکہ ایک گلوکار پڑھائے گا یہ سن کر وہ گلوکار حواس باختہ ہوگیا اور کہنے
لگا کہ لیکن یہ کیسے ممکن ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے تو مولوی صاحب نے کہا کہ
مرنے کے بعد تم جس مولوی کے بغیر قبر کے اندر تک نہیں جا سکتے اس کے خلاف
سارا سارا دن باتیں کرتے ہو اور ان کو برا بھلا کہتے ہو کیسے عجیب انسان ہو
یہ کہتے ہوئے مولوی صاحب وہاں سے رخصت ہوگئے لیکن ان کی بات اس گلوکار کے
دل پر اثر کر گئی اور وہ گلوکار یہ باتیں سن کر بیہوش ہوگیا لوگ جلدی جلدی
اسے اس کے گھر تک لے گئے کچھ دیر بیہوش رہنے کے بعد جب اسے ہوش آیا تو
مولوی صاحب کی باتیں اس کے دماغ میں گھومنے لگی ان کی باتوں نے اس دل و
دماغ پر اتنا گہرا اثر کیا کہ وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور ان کے
پائوں میں گر معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا کہ مجھے اپنے ساتھ رکھ لیجئے
میں آپ کی خدمت کروں گا میں گانے اور موسیقی سے توبہ کرتا ہوں اس کی یہ
حالت دیکھ کر مولوی صاحب کو بھی اس پر رحم آگیا اور اسے علم دین سیکھنے کے
لئے ایک مدرسہ میں داخل کروادیا جہاں اس نے دل لگا کر پڑھائی کی اور ایک دن
وہ ایک بہت بڑا عالم دین بن کر لوگوں کو دین کی تعلیم دینے میں مصروف ہوگیا
۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے جیسے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص اللہ
تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے اور اس
کی بات ہمارے دل و دماغ پر براہ راست اثر کرتی ہے تو وہ کوئی عام شخص نہیں
بلکہ یقیناً اللہ کا مقرب اور ولی صفت انسان ہوگا جیسے مولوی صاحب بس یہ ہی
ہے نسبت اور صحبت کا فیضان جو کسی بھی مشکل وقت میں کسی بھی راستہ بھٹکنے
والے کو راہ راست پر لانے کے لئے ہماوقت تیار رہتا ہے بس شرط ہے یقین ایسے
لوگوں کا ذکر صرف ہمارے فقہاء کی کتابوں میں ہی نہیں بلکہ قرآن اور احادیث
میں بھی ایسے لوگوں کا ذکر ہمیں جا بجا ملتا ہے جیسے قرآن مجید کی سورہ
النساء کی آیت 69 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ
اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ
الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا (69).
ترجمعہ کنزالایمان:
اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر
اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے
ساتھی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ایسے لوگوں
کا ذکر ہمیں ملتا ہے صحیح البخاری کی ایک حدیث جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ" اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے ولی سے عداوت کرے گا میں اس
سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور جن عبادتوں کے ذریعے وہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا
ہے اور پھر میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب اس کو اپنا محبوب
بنالیتا ہوں تو پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے میں اس کی
آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے
وہ بولتا ہے میں اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور پھر مجھ سے
جو سوال کرتا ہے میں وہ پورا کرتا ہوں اور پناہ مانگتا ہے تو پناہ بخشتا
ہوں " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن کی مذکورہ آیت اور اس احادیث مبارکہ
سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے خاص ، مقرب اور محبوب بندے اب چاہے وہ
انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ہوں صحابہ کرام علیہم الرضوان ہوں اولیاء
کرام ہوں یا پھر بزرگان دین جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا
ہوکر سنتوں پر عمل کرکے اللہ اور اس کے حبیب کریمﷺ کا قرب حاصل کرلیتا ہے
وہ اللہ کا خاص اور مقرب بندہ بن جاتا ہے اور اس کا شمار اللہ کے ولیوں میں
ہوتا ہے اور یہ سلسلہ انبیاء کرام علیہم السلام سے لیکر رہتی قیامت تک جاری
و ساری رہے گا کیوںکہ یہ بندے اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اللہ کے حکم پر اس
کے بندوں کی ہدایت کے لئے ہر وقت ہر لمحہ اور جگہ موجود ہوتے ہیں اور اللہ
تعالی کے جن بندوں نے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کی ایسے لوگوں سے اپنی
نسبت قائم کرلی تو ان کی بھی دنیا و آخرت دونوں سنور جائے گی ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اچھے اور نیک لوگوں کے ساتھ رہنے اور وقت
گزارنے میں ہی ہماری نجات ہے لہذہ اللہ تعالیٰ کے کسی محبوب اور مقرب ہستی
سے اپنی نسبت قائم کرلیں اور زندگی کا زیادہ وقت دینی ماحول میں گزارنے کی
عادت بنالیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے نیک مقرب اور محبوب
بندوں سے ہمیشہ ہمیشہ جڑے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے وسیلے سے
ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ
علیہ وآلیہ وسلم ۔
|