خشک سالی کا عالمی چیلنج اور ناگزیر اقدامات

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دنیا کی 75 فیصد زمین "مستقل طور پر خشک" ہو چکی ہے۔اقوام متحدہ کے کنونشن ٹو کمبیٹ ڈیزرٹیفکیشن (یو این سی سی ڈی) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ خشک زمین اب انٹارکٹیکا کو چھوڑ کر زمین کے تقریبا 40 فیصد رقبے پر محیط ہے، جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ تبدیلی 2100 تک پانچ ارب افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 تک کی تین دہائیوں کے دوران زمین کے تقریباً 77.6 فیصد حصے کو گزشتہ 30 سال کے مقابلے میں زیادہ خشک حالات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بظاہر ناقابل تلافی رجحانات کی وجہ سے پیدا ہونے والے " خطرے" کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ خشک زمین، جن علاقوں میں زراعت مشکل ہے، میں 1990 اور 2020 کے درمیان 4.3 ملین مربع کلومیٹر (1.7 ملین مربع میل) کا اضافہ ہوا ہے ۔یہ انتباہ یو این سی سی ڈی کے تحت کانفرنس آف دی پارٹیز (سی او پی 16) کے 16 ویں اجلاس کے لئے ریاض میں منعقدہ اجلاس کے دوران سامنے آیا ہے جس میں زمین کے تحفظ اور بحالی اور جاری موسمیاتی تبدیلیوں کے درمیان خشک سالی سے نمٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ خشک سالی، پانی کی دائمی قلت، اب زمین کے 40.6 فیصد رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، جس میں انٹارکٹیکا شامل نہیں ہے، جبکہ 30 سال پہلے یہ شرح 37.5 فیصد تھی۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں بحیرہ روم، جنوبی افریقہ، جنوبی آسٹریلیا اور ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بعض علاقے شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تبدیلیوں کی بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے گلوبل وارمنگ ہے، جو بارشوں کو تبدیل کرتی ہیں اور بخارات میں اضافہ کرتی ہیں۔حکام نے مزید کہا کہ پہلی بار اقوام متحدہ کا کوئی سائنسی ادارہ خبردار کر رہا ہے کہ فوسل ایندھن جلانے سے دنیا کے بیشتر حصوں میں مستقل طور پر خشکی ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے "پانی تک رسائی کو متاثر کرنے والے ممکنہ تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو انسانیت اور فطرت کو تباہ کن نتائج کے مزید قریب دھکیل سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق پانی کی دائمی قلت کے اثرات میں مٹی کا انحطاط، ماحولیاتی نظام کی تباہی، غذائی عدم تحفظ اور جبری نقل مکانی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق پہلے ہی 2.3 ارب افراد خشک علاقوں میں رہتے ہیں اور اندازوں کے مطابق کرہ ارض کے گرم ہونے کی وجہ سے 5 ارب افراد ان حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس رجحان کا مقابلہ کرنے کے لئے، سائنس دانوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ "خشک سالی کی نگرانی کے موجودہ نظام میں بہتر لائیں ، مٹی اور پانی کے انتظام کو بہتر بنائیں، اور کمزور کمیونٹیز میں لچک پیدا کریں۔

دوسری جانب چین جیسے بڑے ممالک بھی پانی کے انتظام اور خشک سالی سے نمٹنے سے متعلق اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔وسیع تناظر میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں چین میں آبی وسائل کی بقا اور تحفظ کے سلسلے میں تاریخی کامیابیوں کے نمایاں ثمرات برآمد ہوئے ہیں۔چین نے ، پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے، پانی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے، سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ کے موئثر اقدامات اپنانے اور آبی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک ہمہ جہت نظام تشکیل دیا ہے۔

آبی وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے درپیش مشکلات پر قابو پاتے ہوئے ملک نے عالمی سطح پر میٹھے پانی کے مجموعی وسائل کے صرف 6 فیصد سے دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کیا ہے۔اس نظام کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں بھی سامنے آیا ہے کہ چین نے طاس پر مبنی روک تھام کے نظام میں مسلسل بہتری، قبل از وقت انتباہی اقدامات، مشقوں اور پیشگی منصوبہ بندی کی مضبوطی اور پانی کے تحفظ کے بنیادی ڈھانچے کو سائنسی اور درست طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے بڑے سیلابوں پر قابو پایا ہے۔

اس کے علاوہ ، دیہی علاقوں میں پینے کے محفوظ پانی کا دیرینہ حل طلب مسئلہ حل ہو چکا ہے ۔ محدود آبی وسائل کے ساتھ، پانی کا تحفظ چین کے ایجنڈے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔اس ضمن میں 2019 میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایکشن پلان جاری کیا گیا اور کئی محاذوں پر کوششیں کی گئی ہیں، جن میں زراعت، صنعت، شہری علاقوں اور دیگر اہم شعبوں میں پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی ٹیکنالوجی کی اختراعات شامل ہیں۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1372 Articles with 638575 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More