شاید آپ کو بھی معلوم ہو کہ نمبر 1
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
(سلطان بشیر الدین محمود کی تصویر ڈان اخبار شائع September 6, 2017 سے لی گئی ہے) |
|
سلطان بشیر الدین محمود جو1940میں پیدا ہوئے ایک پاکستانی جوہری انجینئراور اسلامی علوم کے اسکالر ہیں۔ وہ اسلام اور سائنس کے درمیان تعلق پر کتابیں تصنیف کرتے ہوئے اسلام آباد میں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 1940 میں امرتسر میں جنم لینے والے سلطان بشیر الدین محمود کی شخصیت اگرچہ کئی حوالوں سے متنازع رہی مگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں ان کی قابل قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) میں ایک ممتاز کیرئیر گزارنے کے بعد انہوں نے 1999 میں اُمّہ تعمیر نو (UTN) کی بنیاد رکھی ، ایک دائیں بازو کی تنظیم جس پر 2001 میں امریکہ نے پابندی عائد کر دی تھی۔ اپنی کلاس میں اول مقام پرہوتے ہوئے ایک مقامی ہائی اسکول سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کو اسکالرشپ سے نوازا گیا اور الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے ایک سمسٹر گزارنے کے بعد وہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور منتقل ہو گئے، جہاں 1960 میں آنرز کے ساتھ بیچلر آف سائنس کے ساتھ گریجویشن کیا۔ ان کی اسناد کی وجہ سے وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) میں شامل ہوئے جہاں انہوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک اور اسکالرشپ حاصل کی۔ 962 1میں وہ یونیورسٹی آف مانچسٹر گئے جہاں انہوں نے ڈبل ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ سب سے پہلے 1965 میں کنٹرول سسٹمز میں ماسٹرز کا پروگرام مکمل کیا پھر 1969 میں مانچسٹر یونیورسٹی سے نیوکلیئر انجینئرنگ میں ایک اور ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ پاکستان کے جوہری پروگرام میں 30 سال سے زائد عرصے کے دوران انھوں نے پاکستان کے چھوٹے لیکن بڑھتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے لیے افزودہ یورینیم اور پلوٹونیم پیدا کرنے کے لیے پلانٹس کی تعمیر کا آغاز کیا۔ لیکن ایک ایسے برانڈ کے سبسکرائبر کے طور پر جو پریکٹیشنرز کو ''اسلامک سائنس'' کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا خیال ہے کہ قرآن سائنسی علم کا سرچشمہ ہے، جناب بشیرالدین محمود نے جنّات سے متعلق مقالے شائع کیے ہیں جن کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔ آگ سے بنی اس مخلوق کے بارے میں انھوں نے تجویز کیا ہے کہ توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے اس مخلوق کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے موت کے بعد کی زندگی کے میکانکس کو سمجھنے کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔
|