زندگی کا سفر مختصر ہےلیکن اس میں بے شمار تجربات، فیصلے
اور چیلنجز پوشیدہ ہیں۔ ہر لمحہ ایک نیا سبق دیتا ہے اور ہر موڑ پر انسان
کی شخصیت کو نکھارنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ سفر محض وقت کا گزرنا نہیں
بلکہ انسانی شعور اور فہم کو گہرا کرنے کا ذریعہ ہے۔ کامیابیوں اور
ناکامیوں کا یہ سلسلہ انسان کو اپنی کمزوریوں اور طاقتوں کا ادراک بخشتا ہے
اور دوسروں کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں توازن قائم رکھنے کا درس دیتا
ہے۔ زندگی کی یہ مختصر مدت ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ ہر تجربہ
ایک نیا سبق رکھتا ہے ۔
دیہات کی سادہ زندگی میں ایسے کئی نظریے پائے جاتے ہیں جو ہمیں زندگی کو
سمجھنے اور اس کے معنی دریافت کرنے کا موقع دیتے ہیں۔گزشتہ سردیوں کی
تعطیلات میں مجھے گاؤں جانے کا موقع ملا، جہاں میری ملاقات ایک دانشور بزرگ
سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیسے ایک کامیاب اور پُرسکون زندگی گزاری
جا سکتی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ کامیابی اور سکون کا راز سادگی، دیانت
داری اور دوسروں کی بھلائی میں ہے۔ پھر انہوں نے مجھے زندگی کے چار مراحل
"پُکھ، رَج،کُود اور پھا" کے فلسفے سے روشناس کروایا۔ان کا اندازِ بیان
اتنا سادہ اور پُراثر تھا کہ محسوس ہوا جیسے انہوں نے زندگی کے ہر تجربے کا
نچوڑ چند جملوں میں سمیٹ دیا ہو۔ میں نے اس لمحے میں یہ جانا کہ کسی بھی
عظیم فلسفی کے لیے تجربات اور عمیق سوچ کا مجموعہ کتنا اہم ہے۔ یہ تجربات
انسان کو حقیقتوں سے آگاہ کرتے ہیں اور ان میں چھپے ہوئے سبق انسان کو وہ
گہرائی عطا کرتے ہیں جو اسے دنیا کو ایک منفرد زاویے سے دیکھنے کے قابل
بناتی ہے۔
یہ کا نظریہ انسانی زندگی کے چار مختلف مراحل کو بیان کرتا ہےجہاں ہر مرحلہ
ایک نئے سبق اور ایک نئی سوچ کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ سفر ایک عام انسان کی
جدوجہد، کامیابی، غرور اور انجام کی کہانی سناتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کس
طرح طاقت، اختیار اور عروج کو سنبھالنا چاہیے تاکہ ایک متوازن اور بامعنی
زندگی گزاری جا سکے۔
أ. پُکھ (بھوک) : خالی ہاتھ اور جدوجہد کا آغاز
پہلا مرحلہ " پُکھ " ہے جس کا مطلب ہے کہ انسان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ
خالی ہاتھ ہونا، معاشرتی اور مالی مشکلات سے بھرپور ایک ایسی حالت ہے جس
میں انسان اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کا
آغاز کرتا ہے۔ یہ دور مشکلات، مایوسیوں اور صبر کی آزمائشوں سے عبارت ہوتا
ہے اور یہ انسان کے لیے خوداعتمادی، صبر اور مستقل مزاجی کا امتحان
ہے۔زندگی کا یہ پہلا مرحلہ انسان کو سکھاتا ہے کہ حقیقت میں اس کے پاس کچھ
نہیں ہے مگر اس کے اندر کی صلاحیتیں اور قوت اس کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ اس
مرحلے میں وہ اپنے عزم اور ہمت کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔ یہ دور زندگی کی
اصل بنیاد رکھتا ہے جس میں انسان اپنے کردار، سوچ اور اصولوں کو استوار
کرتا ہے۔
ب. رج ) سیر ہونا : (کامیابی، استحکام اور عاجزی کا مقام
زندگی کا دوسرا مرحلہ "رج" ہے جو کامیابی کے حصول اور استحکام کا دور
کہلاتا ہے۔ یہاں آ کر انسان اپنے خوابوں کی تعبیر پاتا ہے اور اپنی محنت کا
پھل حاصل کرتا ہے۔ اس مرحلے پر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے اور اس کی
زندگی میں ایک نیا اعتماد آتا ہے۔ یہاں اسے سماجی اور مالی استحکام بھی
حاصل ہوتا ہے۔ لیکن یہ کامیابی کے ساتھ عاجزی کے سبق کا وقت بھی ہے۔ اگر
انسان اس مقام پر اپنے اختیار اور طاقت کو عاجزی کے ساتھ استعمال کرے اور
دوسروں کی بھلائی کے لیے خود کو وقف کرے تو وہ اپنی زندگی میں توازن برقرار
رکھ سکتا ہے۔
ت. کود) چھلانگیں لگانا : (غرور، طاقت کا نشہ اور اخلاقی زوال
تیسرا مرحلہ "کود" ہے، جس کا مطلب ہے چھلانگ یا ایسی حرکت جو حد سے تجاوز
کر جائے۔ اس مرحلے میں انسان اپنی کامیابی کے نشے میں چور ہو کر غرور اور
تکبر کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان اپنی طاقت اور اختیار کو
بے جا استعمال کرتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتا ہے۔
"کود" کا مرحلہ تباہی کی طرف پہلا قدم ہے جہاں انسان اپنی اصل کو بھلا کر
اپنی طاقت کو دائمی اور اپنی حیثیت کو ہمیشہ رہنے والا سمجھ لیتا ہے۔یہ
مقام انتہائی خطرناک ہے کیونکہ یہاں انسان کا اپنا غرور اسے اندھا کر دیتا
ہے اور وہ لوگوں کے حقوق کو پامال کرنے لگتا ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں اسے
اپنے اعمال کے نتائج کا اندازہ نہیں ہوتا اور وہ اپنے اختیار کے نشے میں
دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتا ہے۔
ث. پھا ) پھندا : ( انجام اور جواب دہی کا مرحلہ
زندگی کا آخری مرحلہ "پھا" ہے جس کا مطلب ہے اپنے اعمال کا حساب دینا اور
اپنے کیے کی سزا پانا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کو اپنے کیے کا انجام
دیکھنا پڑتا ہےاور اسے اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ مرحلہ
ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اختیار اور طاقت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتے اور ہر
انسان کو اپنے اعمال کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
یہ فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی میں اصل کامیابی دوسروں کے لیے کچھ کرنے
میں ہے کیوں کہ طاقت اور اختیار عارضی ہیں اور ایک دن ہمیں اپنے ہر عمل کا
حساب دینا ہوگا۔ اگر کسی نے اچھے اعمال کیے ہیں تو اسے اس کا صلہ ملتا ہے
اور برے اعمال پر اسے سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فلسفے کا بنیادی سبق
یہ ہے کہ حقیقی خوشی توازن ، انصاف، دیانتداری اور عاجزی میں ہے۔ غرور اور
تکبر کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے اور کامیابی کا حقیقی راستہ صرف ان اصولوں
پر قائم رہنے میں ہے۔ دیہات کے بزرگ کی یہ حکمت ہمیں زندگی کی اصل حقیقت کو
سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور یہی انسان کی اصل کامیابی کا راز ہے۔
|