پاکستان ایک زرعی معیشت ہے جبکہ ملک کی زرخیز زمین جدید
زراعت کے لیے انتہائی موزوں ہے ۔یہ بات بھی اچھی ہے کہ پاکستان میں زیر
کاشت زمین کل رقبے کا تقریباً 40 فیصد ہے۔سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار کے
لحاظ سے بھی پاکستان نمایاں مقام رکھتا ہے اور چین سمیت دیگر ممالک میں
پاکستانی آم ،مالٹا اور چیری بہت مشہور ہیں۔
اس حوالے سے ابھی حال ہی میں یہ اچھی خبر سامنے آئی کہ چینی ماہرین اور
پاکستانی محققین کے مشترکہ طور پر تشکیل کردہ ایک انقلابی زرعی منصوبہ
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں عملی شکل اختیار کر رہا ہے، جس میں بے مثال
پیمانے پر جدت طرازی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد غذائی عدم تحفظ
سے نمٹنا ہے، جو ملکی اور عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ ہے۔5 ہزار ایکڑ پر
پھیلا ہوا یہ ہائی ٹیک فارم پاکستان کے زرعی منظر نامے کو تبدیل کرنے میں
نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔
یہ جدید ٹیکنالوجیز اور مشترکہ مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غذائی تحفظ حاصل
کرنے کی ایک بڑی کوشش کا حصہ ہے۔اس منصوبے کے مرکز میں اعلی کارکردگی والے
آبپاشی کے نظام اور جدید زرعی مشینری کا استعمال ہے۔درآمد شدہ چینی
سازوسامان اور مقامی طور پر تیار کردہ اوزار دونوں کے انضمام سے کاشت کاری
کی لاگت کو نمایاں حد تک کم کیا گیا ہے اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حتمی
مقصد کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
فارم انتظامیہ کے مطابق انہوں نے چینی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا ہے، خاص
طور پر زرعی میکانائزیشن میں انہیں چین سے سیکھنے کا نمایاں موقع میسر آیا
ہے . انتظامیہ نے جدید ترین چینی ٹریکٹر متعارف اور درآمد کیے ہیں جو بہت
آرام دہ ہیں اور بڑے پیمانے پر کام کرتے ہیں۔ روایتی ٹریکٹروں کے ماڈل کے
مقابلے میں ان کی یومیہ کارکردگی کی شرح زیادہ ہے۔
پاکستان کے زرعی شعبے کو طویل عرصے سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ 60 فیصد سے
زیادہ کسان غیر رسمی بازاروں کے کم معیار کے بیجوں پر انحصار کرتے ہیں، اس
اقدام کا مقصد بدلتے ہوئے آب و ہوا کے حالات کے لئے موزوں ہائبرڈ بیج تیار
کرکے اس فرق کو کم کرنا ہے۔
فصلوں کے علاوہ، یہ اقدام مویشیوں اور ڈیری فارمنگ تک پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان کا دودھ اور گوشت کا شعبہ بڑے پیمانے پر کمرشلائزڈ ہے۔ اس منصوبے
کا مقصد بڑے پیمانے پر اور ٹیکنالوجی سے چلنے والے لائیو سٹاک فارم متعارف
کروا کر اسے تبدیل کرنا ہے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد ایسے جانوروں کو
درآمد کرنا ہے جن میں دودھ اور گوشت کی مقدار زیادہ ہے تاکہ قومی سطح پر
ملک میں دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔
جدید ٹیکنالوجیوں کے ساتھ ، ان فارمز کا مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرنے
اور سپلائی چین کی ترقی کے ذریعے مقامی معیشتوں کو فروغ دیتے ہوئے پیداواری
صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔اس ضمن میں فوڈ پروسیسنگ اور ڈسٹری بیوشن بھی اہم
اجزاء ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت متعدد اقتصادی زونز زرعی
پروسیسنگ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، اس طرح کے منصوبے بڑی مارکیٹوں تک
رسائی حاصل کرنے کے لئے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں۔
ویسے بھی اس وقت چین پاکستان اقتصادی راہداری دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی
ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون اس مرحلے کی ترقی کا مرکز ہے۔ مستقبل
میں، پاکستان چین کے ساتھ زرعی تعاون کو مزید بڑھانے اور چین میں آم، چیری
اور ڈیری سمیت دیگر زرعی مصنوعات کی برآمد کو ترقی دینے کی امید رکھتا ہے۔
چین اور پاکستان کے درمیان زرعی شعبے میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں
۔ بیجوں کی صنعت ، زرعی مشینری ، زرعی پیداوار کی پروسیسنگ ، ، کولڈ چین
اسٹوریج ، بیف اور مٹن جیسی مصنوعات کے شعبوں میں سرمایہ کاری ہو سکتی ہے ۔
چین پاکستان میں زراعت کی جدت کاری کے لیے جدید زرعی پیداواری عناصر فراہم
کر سکتا ہے جس سے ملک میں اناج کی سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی
ہے اور پیداوار کی اعلیٰ سطحی پروسینگ کے ذریعے برآمدات میں بھی اضافہ ممکن
ہے ۔
چینی منڈی سے مستفید ہونے کے مواقع کے ساتھ پاکستان میں اعلیٰ معیار کی
زرعی مصنوعات بھی فراہم کی جا سکیں گی اور صنعتی اور زرعی تعاون پر توجہ
مرکوز کرتے ہوئے اعلیٰ معیار کی ترقی کے ایک نئے مرحلے کی جانب کامیابی سے
بڑھا جا سکے گا۔لہذا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان زرعی
تعاون کا مستقبل انتہائی روشن ہے ۔
|