اک عمر سے فریب ِ سفر کھا رہے ہیں ہم
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(اخلاقیاتِ آمد و رفت کے حوالے سے چند سطور ) |
|
|
از راجہ محمد عتیق افسر ایگزیکٹو کوآرڈینیٹر، شعبہ اسلامیات ، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد۔ 03005930098، [email protected] راستوں میں بہترین راستہ ہدایت کا راستہ ہے جو سیدھا راستہ ہے اور اللہ کی خوشنودی کا راستہ ہے ۔انسان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ سیدھی راہ کی پہچان کی قدرت رکھتا ہے ۔ یہ ایک انسان کے لیے عار کا مقام ہے کہ اس صلاحیت کے ہوتے ہوئے بھی وہ معصیت کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اپنے رب کے غضب کو آواز دے بیٹھتا ہے ۔انسان جب بھی گھر سے نکلے اس کے پیش نظر یہ ہونا چاہیے کہ ہر صورت اسی راہ کو اختیار کرنا ہے جو سیدھی راہ ہواور کسی بھی صورت معصیت کا راستہ نہیں اختیار کرنا ۔ارشاد باری تعالی ہے )وَعَلَى اللّٰهِ قَصۡدُ السَّبِيۡلِ وَمِنۡهَا جَآئِرٌؕ وَلَوۡ شَآءَ لَهَدٰٮكُمۡ اَجۡمَعِيۡنَ . سورة النَّحْل (9-10 "اور اللہ ہی کے ذمّہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا" کام کاج کے لیے گھر سے نکلتے وقت ہم پکڈنڈی ، پیادہ راہ(فٹ پاتھ)، سڑک اور شاہراہوں کا استعمال کرتے ہیں ۔راستہ خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ہماری ذاتی ملکیت نہیں ہوتا بلکہ دیگر افراد کی بھی گزرگاہ ہوتا ہے ۔اس لیے راہ چلتے وقت وہ ڈھنگ اختیار کریں کہ ہم کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنیں ۔چلتے وقت ہمارے ذمہ نہ صرف ہماری جان اور مال ہے بلکہ دوسروں کی جان اور مال کی حفاظت بھی ہماری ہی ذمہ داری ہوتی ہے ۔لہذا راستے پہ قدم رکھیں یا سواری پہ سوار ہوں تو اسی احساس ذمہ داری کے ساتھ سفر کا آغاز کریں اور دوران ِسفر اس کا مظاہرہ کریں ۔ ہم جس دین کے پیرو کار ہیں وہ ہمیں ہر حال میں اعتدال کا درس دیتا ہے اور راہ چلتے وقت بھی ہمیں درمیانی چال کا حکم ہے ۔(وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ ۔۔۔ سورۃ لقمان-19) حکم ہے ۔نہ ہی تیز رفتاری کا مظاہرہ کریں اور نہ ہی سست روی کا ۔یاد رکھیں کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اسے تیز فتاری کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔محض تیز رفتاری ہی حادثات کا باعث نہیں ہوتی سست روی بھی وبال جان بن سکتی ہے ۔دوران سفر وہ لوگ کتنی اذیت کا باعث بنتے ہیں جو تیز رو میں سست روی سے محو ِسفر ہوتے ہیں ۔اگر آپ کی رفتار کم ہے تو آپ راستے کے ایک جانب چلیں نہ کہ درمیان میں ۔اگر کوئی تیز رفتار مسافر آپ سے آگے ہونا چاہے تو شرح صدر کے ساتھ اسے راستہ دیں ۔جو گزر سکتا ہے اسے گزرنے دیں تاکہ آپ خود ازدھام سے بچیں ۔جس راستے سے آپ کا گزرنا ممکن نہ ہو وہاں اپنی سواری لے کر نہ جائیں تاکہ راستے کی بندش کا سبب آپ نہ ہوں ۔ دیکھا گیا ہے کہ بھیڑ چال میں ہم بھی وہاں جا کر پھنس جاتے ہوں جہاں سے ہماری سواری کا گزرنا محال ہوتا ہے ۔ اور بعض لوگ اپنی حاسدانہ خصلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سواری کو ایسی جگہ پھنسا دیتے ہیں کہ وہاں سے سائیکل سوار اور پیادہ بھی نہیں گزر سکتے یعنی اگر آپ نہیں جا سکتے تو کوئی اور بھی آگے نہ بڑھے۔اس طرح راستہ روکنا یا تو رہزنوں کا کام ہے یا پھر خودسر گدھے کا۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ایمبولینس ، آتش کُش دستہ(فائر بریگیڈ)، اور مددگار عملہ(ریسکیو) کی گاڑیوں کو دیکھتے ہی راستہ خالی کر دینا چاہیے انہیں گھبگّو(سائرن) بجانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ایک جانب یہ شہریوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے موقع پر خود راستہ فراہم کریں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ذمہ ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں ۔یہ امر باعث شرم ہے کہ طبقہ اشرافیہ کے افراد کے کی گزر کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں اور مسافروں کا راستہ روک کر گھنٹوں اذیت کا باعث بنتے ہیں ۔ اس دوران ایمبولینس ، آتش کُش دستہ(فائر بریگیڈ)، اور مددگار عملہ(ریسکیو) کی گاڑیوں کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ راستے میں اگر کوئی حادثہ ہوا نظر آئے تو انسانیت کا تقاضا ہے کہ آپ مدد گار کا کام کریں ۔تماشائی بن کر راستے میں کھڑے ہونے سے کسی کی بھلائی نہیں ہوتی بلکہ راستے کی بندش کا باعث بنتے ہیں ۔ اگر آپ مدد نہیں کر سکتے تو اپنی راہ لیں اور راستہ بند نہ کریں۔اس موقع پر تصویر کشی کرنا اور ویڈیو بنانا انسانیت سے گرا ہوا عمل ہے۔اسی طرح راہ چلتے ہوئے سواری کو سڑک کے بیچ میں کھڑا کر کے خریداری کرنا یا کسی سے بات چیت کرنا بھی آمدو رفت میں رخنہ ڈالنے کا سبب بنتا ہے ۔ آمدو رفت کے لیے بنائے گئے حکومتی قوانین ہماری بہتری کے لیے بنائے گئے ہیں اور ان پر عمل کرنے مین ہی ہمارا فائدہ ہے ۔۔ ہم لوگ موقع پاتے ہی قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ اس پہ فخر بھی کرتے ہیں ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر چوراہے پہ پولیس حوالدار یا سنتری کھڑا ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کا رب خبیر و بصیر ہے وہ آپ کو ہر حال میں دیکھ رہا ہے ۔ قانون شکنی کر کے آپ اپنی اور دیگر مسافروں کے جان و مال کو داؤ پر لگاتے ہیں ۔کسی بھی نقصان کی صورت میں صرف قانونی مواخذہ نہ ہوگا بلکہ آخرت میں اللہ تعالی کے سامنے جوابدہی بھی ہوگی ۔ لہذا سڑک پہ چلنے کے لیے جن احتیاطی تدابیر (ہیلمٹ، سیٹ بیلٹوغیرہ )کو لازم قرار دیا گیا ہے ان کی پابندی کریں کیونکہ زندگی بار بار نہیں ملتی۔ اگر آپ صاحب ثروت ہیں اور آپ کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہے تو یہ آپ کے لیے مقام شکر ہے ۔بہترین سواری بھی اللہ کی نعمت ہے اوع ایک عام سواری بھی رب کی عنایت ہے ،آپ کا حق ہے کہ آپ نئی سواری خریدیں اور اس پہ سوار ہو کر سفر کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔ نئی سواری کی نمود و نمائش کرنا اور اس پر اترانا دین محمدﷺ سے وابستہ افراد کا شیوہ نہیں ہے ۔ اس لیے گاڑیوں اور ان کے خواص کی نمائش کرنا اور سڑکوں پہ ان کا مظاہرہ کرنا اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ( وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُور۔۔۔۔۔سورۃ لقمان 18) اور زمین میں اِتراکرنہ چل بےشک اللہ کو اترانے والے اور شیخی بکھارنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل میں بھی اللہ تعالی نے اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا ہے ۔ آپ خواہ جتنی دھول اڑا لیں آپ زمین کو دولخت نہیں کر سکتے ۔آپ جتنی تیز رفتاری کا مظاہرہ کر کے دکھائیں اس دنیا کی سرحدوں سے نہیں نکل سکتے ، آپ جتنا شور شرابا کر لیں اس کائنات کو مسخر نہیں کر سکتے ۔لہذا عجز و انکساری کو ہمیشہ زاد راہ میں رکھیے ۔ یہ ذہن نشین کر لیں کہ پیدل چلنے کے لیے جو پاؤں عطاء کیے گئے ہیں ہم ان کا شکر ادا کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے ۔ سڑکوں پہ جو رفتار شکن (سپیڈ بریکر)، اشارے یا راہ افشاں (کیٹ آئیز) نصب کیے جاتے ہیں ان کی بناوٹ میں کوئی ایسا مواد نہیں لگایا جاتا جو گاڑی کے پہیوں کو رکنے پہ مجبور کر دے بلکہ یہ اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر انسان رفتار کو کم کر دے ۔آپ کی گاڑی میں جھٹکے برداشت کرنے کی اچھی استعداد ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ رفتار شکن پر سے تیز رفتاری سے گزر کر اس صلاحیت کا لوہا منوائیں ۔بلکہ خلق خدا آپ سے توقع رکھتی ہے کہ آپ ان نشانوں کو دیکھ کر ہی خلق خدا کی خاطر رفتار گھٹا لیں گے ۔ دوسری جانب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ از خود سڑک پہ رفتار شکن بنانے کی کوشش میں ابھار بنا دیتے ہیں اس سے گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور آمدورفت بھی تعطل کا شکار ہوتی ہے ۔ سڑک پہ رفتار شکن مجاز اداروں کو ہی بنانا چاہئیں اور وہ بھی قوائد کے مطابق۔ راستے میں چلتے ہوئے اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو صبر اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ کسی بندش کی صورت میں اپنی رو میں رہنا چاہیے ۔ جب آمد ورفت اونٹوں کے ذریعے ہوتی تھی تو قافلہ قطار میں چلتا تھا۔ترقی کرتا انسان گاڑی پہ سوار ہو گیا ہے تو وقت کا تقاضا ہے کہ گاڑیاں بھی قطار میں چلیں۔راستہ بند بھی ہو جائے تو قطار سے باہر نکل کر دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہو رہا ہے ۔ آنے اور جانے کے لیے سڑک کی مختلف سمتیں مختص کی گئی ہیں ۔ان کا خیال رکھتے ہوئے اپنے لیے مختص رو میں چلیں تاکہ آمد و رفت میں تعطل سے بھی بچا جاسکے اور حادثات کے امکانات بھی کم ہو سکیں ۔ رات کے وقت سفر کو آسان بنانے کے لیے قندیل راہ (سٹریٹ لائٹ )نصب ہوتی ہیں تاکہ مسافر راستہ دیکھ سکیں ۔ اسکے علاوہ گاڑیوں کی سر بتیاں (ہیڈ لا ئیٹ)بھی راستے کو روشن کرتی ہیں ۔ گاڑی چلاتے وقت سر بتیوں کو خوب تیز روشن کر دیتے ہیں جو سامنے سے آنے والے مسافروں کی آنگکھیں چندھیا دیتی ہیں ۔دوران سفر اپنی سر بتیوں کو مدھم رکھیں تاکہ آپ کی روشنی کسی کی زندگی کا ثراغ بجھانے کا سبب نہ بنے۔سر بتیوں کے علاوہ آپ کی سواری میں اشارے (انڈیکیٹر)بھی موجود ہوتے ہیں جن کا کام دیگر مسافروں کو آپ کے ارادے سے باخبر کرنا ہوتا ہے ۔ ان کا بھرپور اور بروقت استعمال کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچا جا سکے ۔آپ شاہراہ پہ ہوں اور کسی طرف مڑنا چاہتے ہیں تو اس مقام سے کافی دیر پہلے ہی اشارہ دے دیا کریں تاکہ آپ کے آگے اور پیچھے چلنے والے مسافر اپنا بندوبست کر سکیں ۔اسی طرح اگر آپ تیز رو میں چل رہے ہیں تو مڑنے سے قبل ہی لب سڑک کھسک جائیے تاکہ عین موقعے پر آپ دیگر افراد کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں اور نہ ہی آمدو رفت تعطل کا شکار ہو۔ راہ چلتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اطراف میں موجود ماحول بھی ہمارا ہے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں لیکن ہم بحیثیت مجموعی اسے مکدر کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔دھول اڑانا، دھواں اڑانا ، سائلنسر اتار کر شور کرنا، بھونپو(ہارن) بجا کر شور کرنا اور اونچی آواز میں موسیقی سننا یہ ایک طرف تو بد اخلاقی ہے اور دوسری جانب ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی۔بازار سے کوئی چیز لے کر کھانے پر کوئی قانونی گرفت نہیں ہے لیکن کھانے کے بعد کچرے کو بے دردی سے سڑک پہ گرانا کھلی بداخلاقی ہے۔اس وقت کتنا برا لگتا ہے جب کوئی گاڑی کے شیشے سے کچرا گرا دے، تھوک دے یا سگریٹ کی راکھ گرا دے ۔ اگر یہ مواد کسی دوسرے راہگیر کی آنکھ میں چلا جائے تو اس کی آنکھ کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہےسڑکوں پہ پڑا کچرا نکاسی آب میں بھی رکاوٹ بنتا ہے ۔ اسی طرح گیراج میں کھڑی گاڑی دھو کر ہم سارا پانی سڑک پہ چھوڑ دیتے ہیں ۔گھروں اور نالیوں کا پانی سڑکوں پہ جمع ہو کر تالاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے جو ہر گزرنے والے کے لیے وبال کا باعث بنتا ہے ۔اگر کسی شہری یا ادارے کی غفلت کی وجہ سے سڑک پہ پانی آجاتا ہے تو راہگیر اور مسافر کی ذمہ داری ہے کہ وہاں احتیاط سے گزریں ۔ چھینٹے اڑا کر دوسروں کو تکلیف پہنچانا بھی اخلاق باختگی ہے ۔ کوئی بھی راہ گزر کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے لہذا اس بات کا خیال رکھیں کہ اسے مسافروں کے لیے کھلا رکھیں ۔دکان کو ناجائز تجاوزات کے ذریعے سڑک یا پیادہ راہ تک لے جانا یا پھر سڑک پر ریڑھی لگا لینا آمدو رفت میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے ۔مجاز ادارو ں کو چاہیے کہ وہ سڑکوں سے ناجائز تجاوزات کو ختم کریں ۔غریب افراد جو اپنے وسائل سے اپنے لیے روزگار کا سامان جمع کرتے ہیں ان کے لیے سڑک سے متصل جگہ مخصوص کر لینا چاہیے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنا مال تجارت فروخت کر سکیں اور آمدو رفت بھی متاثر نہ ہو۔شہرو ں میں ازدھام کے باعث شاہرات پر جگہ جگہ بالائے سر، پل پیادگان(اوور ہیڈ برج)اور زیر زمین گزرگاہیں (انڈر پاس) تعمیر کیے جات ہیں ۔ یہ عوام کے پیسوں سے عوام کی سہولت کے لیے تعمیر کیے جاتے ہیں ۔ان کی موجودگی میں سڑک عبور کرنے کے لیے سڑک پہ دوڑنا دلیری نہیں ہے بلکہ حماقت ہے ۔اسی طرح خط عابر(زیبرا کراسنگ) کا استعمال کرنا چاہیے اور بالفرض سڑک عبور کرنے کے لیے یہ سہولیات موجود نہ ہوں تو سڑک کو احتیاط سے عبور کرنا چاہیے۔انسان نے دنیا میں قدم رکھتے ہی پیدل چلنا شروع کیا تھا اس لیے پیدل چلنے والوں کا حق مقدم ہے ۔ سواروں کو چاہیے کہ پیدل افراد کو راستہ دیں ۔خط عابر سے پیچھے گاڑی کھڑی کریں تاکہ لوگ بآسانی گزر سکیں ۔ اگر ہم راہ چلتے وقت خود کو قوائد و ضوابط کا پابند کر لیں تو چلتے پھرتے ہم مہذب اور ترقی یافتہ نظر آئیں گے ۔ بڑی بڑی شاہراہیں بنا لینا یا قیمتی گاڑیاں خرید لینا ترقی کی علامت نہیں ہے بلکہ ترقی یہ ہے کہ اذہان کی کی سطح بلند ہو اور ہر شخص احساس ذمہ داری کا مرقع ہو ۔اگر ہم میں سے ہر شخص احساس ذمہ داری کے ساتھ راستوں پہ چلے تو کوئی وجہ نہیں کہ منزل ہماری قدم بوسی نہ کرے ۔امید ہے میرے ہر اہل وطن کے بارے میں دنیا یہ کہے کہ:
دلچسپ ہو گئی ترے چلنے سے رہ گزر اٹھ اٹھ کے گرد راہ لپٹتی ہے راہ سے
|