پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن وامان کے لیے
گذشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن کی اپیکس کمیٹی
کا اجلاس ہوا،جس میں اعلیٰ عسکری وسول قیادت جبکہ وفاقی وزراء،وزرائے اعلیٰ
اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ بھی شریک ہوئے، اجلاس میں امن وامان کی
مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور انسداد دہشت گردی آپریشنز کے نتائج
پر غور ہوا،ساتھ ہی پاک افغان سرحدی امور،خوارج کے خلاف آپریشنز کا معاملہ
زیر بحث آیا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے
سیکیورٹی کونسل کے بطور غیر مستقل رکن اپنی ذمہ داری سنبھال لی،پاکستان دو
سال تک سیکیورٹی کونسل میں بھر پور کردار ادا کرے گا۔انہوں نے کہا کہ سرحد
پار سے پاکستان پر چند دن پہلے حملہ ہوا،دشمن کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا
گیا،پاکستان کے خلاف سازشیں بنی جارہی ہیں،ہمیں خارجی ہاتھوں کا اچھی طرح
علم ہے کہ کن کن ممالک سے ان کو سپورٹ مل رہی ہے۔فتنہ الخوارج کے مکمل
صفایہ کرنے کا وقت آچکا ہے،افغانستان سے گھس بیٹھیے پاکستان میں کاروائیاں
کررہے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردوں کے سہولت کار بیٹھے ہیں۔ڈیجیٹل دہشت
گردی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان سے باہر ملک دشمن عناصر بیٹھے
ہیں جو پاکستان کے خلاف باہر سے بیٹھ کر سوشل میڈیا پر مہم چلارہے ہیں اور
سوشل میڈیا پر حقائق مسخ کرکے پاکستان کے خلاف جھوٹ کو پھیلاجارہا ہے۔اس سے
قبل نیشنل ایکشن کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں دہشت گردی کے
خاتمے کے لیے فوجی آپریشن کا فیصلہ ایسے موقع پر کیا گیا جب بلوچستان میں
دہشت گرد تنظیموں نے بیرونی طاقتوں کی ایماء پر بلوچستان کے ساتھ ساتھ ملک
کے سب سے بڑے شہرکراچی میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے متعدد واقعات کو
انجام دیا جن میں درجنوں معصوم اوربے گناہ مقامی وغیرمقامی افراد،چینی
باشندوں اور خصوصاً غیر مقامی مزدوروں کو قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر
نشانہ بنایا گیا تھا۔چند ماہ قبل امریکی سی آئی اے کی اہم سابق رکن اور
Intelligence analystسارا ایڈمزکایہ انکشاف منظر عام پر آیا تھا کہ ہم نے
پشتونستان اور علیحدہ بلوچستان بنانے کے لیے فنڈنگ کی،جس کی ابھی تک وائٹ
ہاؤس نے تردید نہیں کی۔معلومات کے مطابق افغانستان سے انخلاء کے بعد طالبان
کو امریکہ سے 18.05ارب ڈالر ملے۔احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے مطابق اب بھی ہر
ماہ بذریعہ جہاز 67ملین ڈالر افغانستان آرہے ہیں،اگر یہ رقم پاکستان کے
خلاف استعمال نہ ہورہی ہوتی تو ہمیں اس فنڈنگ سے کوئی غرض نہ تھی۔دوسری
جانب بھارتی خفیہ ایجنسی راء بلوچستان میں تخریب کاری کو سپانسر کررہی
ہے۔اطلاعات کے مطابق کابل میں ٹی ٹی پی کے تین کیمپ اور جلال آباد میں بی
ایل اے کے دو تربیتی کیمپ موجود ہیں جو راء اور طالبان کی سرپرستی میں چل
رہے ہیں۔ان کیمپوں میں بی ایل اے کے چار سو سے زائد دہشت گرد ٹریننگ لے رہے
ہیں،جن کو جدید اسلحہ اور مالی فنڈنگ فراہم کی جارہی ہے۔بلوچستان میں دہشت
گردی کے نیٹ ورک کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں بلوچ
اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO)کو استعمال کیا جارہا ہے۔بی ایس او کالجز اور
یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات کو ریاستی مظالم اور بلوچستان کی محرومیوں کی
جھوٹی کہانیاں سنا کر انہیں گمراہ کرتی ہے اور پھر اپنے مذموم مقاصد کے لیے
استعمال کیا جاتا ہے۔دہشت گردی چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونے والے بی
ایل اے کے سابق کمانڈر طلعت عزیز نے بتایا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں
سیاسیات کے تھرڈ سمسٹر کا طالب علم تھا جب بلوچ اسٹوڈنٹس کے لوگوں نے اس کو
اتنا گمراہ کیا کہ اس نے پنجابیوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے،جبکہ وہ
پنجابیوں کے ساتھ پڑھتا رہا۔اس کو پہاڑوں پر نئی زندگی کے خواب دکھائے گئے
جن کی تعبیر انتہائی بھیانک تھی،لاپتہ افراد کی حقیقت محض ایک ڈرامے کے
سواء کچھ نہیں۔چند روز قبل بی وائی سی نے ظریف بلوچ نامی ایک شخص جوکہ ذاتی
دشمنی کی بھینٹ چڑھا کے قتل کاالزام ریاستی اداروں پرلگا کر احتجاج کیے
اوراس احتجاج میں بی وائی سی کی تربیت یافتہ خواتین نے اسد بلوچ نامی ایک
خود کش حملہ آور جس نے پی سی ہوٹل گوادر پرحملہ کیا تھا،کی تصاویرکو اٹھا
کر اس کو”جبری گمشدہ“ظاہر کیا۔ملک دشمن ایجنٹ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے
تحت نہتے اور بے گناہ بچوں،بوڑھوں اور خواتین کے قاتلوں،اسمگلروں اور بھتہ
خوری کو ”مسنگ پرسن“بنا کر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈا
کرکے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے
ہیں۔بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے مقصد ایک ہی ہے کسی نہ کسی طرح
بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبے جن میں سی پیک سرفہرست ہے کی راہ میں
مشکلات کھڑی کرنا کیونکہ سی پیک منصوبہ پاکستان وچین سمیت پورے خطے کے لیے
گیم چینجر ہے۔اس سے نہ صرف چین کے روابط دنیا تک وسیع ہوں گے بلکہ پاکستان
بھی ترقی وخوشحالی کے مراحل طے کریگا اور یہی وجہ ہے کہ جب سے سی پیک کا
معاہدہ ہوا امریکہ اور بھارت اس پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کرتے نظر آئے
ہیں۔امریکہ کو علم ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان داخلی طور پر
مستحکم ہوگا اور دوسری جانب چین کو بڑی اقتصادی قوت(سپر پاور)بننے سے روکا
نہیں جاسکے گا جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لیے کھٹک رہا ہے کہ وہ نیو
کلیئر پاور بننے کے بعد دفاعی حوالے سے پاکستان کو کسی صورت چیلنج نہیں
کرسکتا اور سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان بھارت کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے
چھوڑ دے گا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت افغانستان کے راستے بلوچستان میں دہشت گردی
کو فروغ دے رہا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے براہ راست بھارت ملوث ہے
جس کا ثبوت گذشتہ روز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی جس
میں پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں بھارت کا گھناؤنا کردار ایک
بار پھر سے بے نقاب ہوگیا،رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے اجرتی قاتلوں اور
افغانی ہتھیاروں کے ذریعے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کروائی۔واشنگٹن پوسٹ نے
بھارتی حکومت کی سرپرستی میں چلائے جانے والا نیٹ ورک کا پول کھول
دیا۔نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے
خلاف ایک جامع فوجی آپریشن کی منظوری کے بعد بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں
اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔محب وطن بلوچ ملک دشمن عناصر کے جھوٹے بیانیے
کو یکسرمسترد کرچکے ہیں۔بلوچستان تیزی سے ترقی وخوشحالی کی راہوں پر گامزن
ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں بیرونی قوتیں مکمل طور پر
ناکام ہوچکی ہیں۔
|