ان دنوں وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز کے حکم پر
پنجاب بھر میں صفائی ستھرائی کا عمل شروع ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ کے بعد تجاوزات
کی توڑ پھوڑ بھی زوروشور سے جاری ہے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ فیصل
آباد شہر کی بات کریں تو یہاں سب سے بڑا آپریشن کلین اپ ڈی سی او نسیم صادق
کے دور میں ہوا جن کا نام اب تک بچے بچے کے زبان پر ہے۔ شہر بھر سے مویشیوں
کو باہر شفٹ کیا گیا۔ شہر کے اندر سے گزرنے والے راجباہ کے کناروں کو پختہ
کرکے گندے نالوں کا پانی شامل ہونے سے بچایا گیا اور شہر بھر میں بڑے
پیمانے پر ناصرف شجرکاری کی گئی بلکہ ان کی دیکھ بھال بھی پوری توجہ سے کی
گئی۔
دوسرا بڑا آپریشن عمران خان کے دور حکومت میں ہوا جب ایشیاء کی سب سے بڑی
کالونی کا اعزاز رکھنے والے علاقہ غلام محمد آباد میں آپریشن کلین اپ کیا
گیا ،تب معلوم ہوا کہ یہاں تو لاتعداد گرائونڈز اور پارک موجود ہیں، تین
مرلہ کا گھر اور لوگوں نے دس دس مرلے سرکاری اراضی کو قبضہ میں لیا ہوا
تھا۔ لوگوں کا بہت نقصان ہوا، بڑے بڑے لوہے کے گیٹ کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے
پڑے، کچھ ہفتے غلام محمد آباد ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے یہاں پر کوئی بڑی
جنگ لڑی گئی ہو ہر طرف توڑ پھوڑ کے مناظر تھے۔
تیسرا آپریشن ان دنوں جاری ہے جب شہر کی مصروف اور دنیا بھر میں معروف ترین
جگہ گھنٹہ گھر اوراطراف کے آٹھ بازاروں کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کرکے
پیدل گزرنے کا حکم صادر کیا گیا۔ دکانوں مارکیٹیوں کے شٹر، جہازی سائز کے
بوڑ، پختہ سیڑھیاں اور تھڑے سب کچھ ملیا میٹ کر دیا گیا۔ لوگوں نے اپنی
اپنی دکانداری چمکانے کیلئے بہت پیسہ لگا کے یہ سب بنوایا لیکن آن کی آن
میں سب کچھ زمین بوس ہوگیا۔
تصویر کا دوسرا رخ۔۔۔۔ نقصان کس کا ہے ؟
لوگوں کا ہزاروں نہیں کروڑوں کا نقصان ہو چکا ہے، بازاروں میں گاڑی لیجانے
کی اجازت نہیں اور شہر میں پارکنگ کیلئے کوئی جگہ دستیاب ہی نہیں، مین روڈ
کی اطراف پر پارکنگ کروائی جا رہی ہے جہاں اللہ توکل پارکنگ کمپنی پیسے جمع
کرنے میں مصروف عمل ہے۔ شہر کے قلب بیرون چنیوٹ بازار میں تعمیر ہونے والا
پارکنگ پلازہ جس زور و شور سے شروع ہوا تھا اسی سپیڈ کے ساتھ اس کا کام روک
دیا گیاجوتاحال شروع نہیں ہو سکا۔ بیرون کچہری بازار وکلاء کی سلطنت ہے
عوام جائے تو کہاں جائے؟ اگر تجاوزات ناجائز ہیں تو اس کو کنٹرول کرنے والا
محکمہ کیا اب وجود میں آیا ہے؟ سارا سال وہ عوام سے بھتہ خوری کرتا ہے اور
جب ایسی مہم چلی آجاتے ہیں توڑ پھوڑ کرنے۔ کیا عوام کا ہونے والا نقصان ان
راشی افسروں سے پورا کروایا جائے گا جو روزانہ یا ہفتہ وار یا منتھلی
دکانداروں سے وصول کرکے سب اوکے کہتے رہتے ہیں؟ اس طرف توجہ کون دے گا؟
حکومت کا نقصان کوئی کم نہیں ہے، مشینری، عملہ ، مشہوری اور وارننگ کی
پبلسٹی کیا کم پیسوں میں ہوتی ہے؟ عوام کو اب سوچنا چاہیے کہ ہر کوئی اپنی
حد میں رہے، دکان کا سامان دکان کے اندر رکھیں، راستہ آنے جانے والوں کے
لیے کھلا چھوڑیں، متعلقہ محکمے بھی رشوت خوری کرکے اپنی اولاد کو حرام نہ
کھلائیں ایمانداری سے کام کریں جو چیزمنع ہے اس پر عملدرآمد آپ کا ہی فرض
ہے، اب جب ایک بار پھر لوگوں کانقصان کر دیا گیا ہے تو خدارا ان تجاوزات کو
دوبارہ نہ ہونے دیں، نہ کسی کو جھوٹا لارا لگائیں نہ سیاسی دکانداری چمکنے
دیں۔
عوام کو بھی اب زی شعور ہونا ہوگا۔ سڑک ہو یا پارک، لوہے کا جنگلہ ہو یا
گٹر کا ڈھکن، درخت ہوں یا بجلے کے کھمبے سب ہمارا اثاثہ ہیں ان کی حفاظت
بھی ہم نے ہی کرنی ہے۔ ایک دوسرے کو شعور دیں، نہ روز روز اپنا نقصان کریں
نہ حکومت کا۔ ہم تو پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں،
ہوشربا بجلی اور گیس کے بلز پورے نہیں ہو رہے باقی نقصان کیسے پورا کریں
گے؟ میرا شہر میری مرضی ضرور چلائیں لیکن شہر کو سنوارنے کیلئے شہر کو
اجاڑنے کیلئے نہیں۔
|