خالق کائنا ت نے اپنے کلام پاک
میں متعدد بار ارشاد فرمایا ہے کہ تم کمزوروں پر رحم کرو، تاکہ تم پر رحم
کیا جائے،محتاجوں ، مسکینوں، یتیموں اورضرورت مندوں حتیٰ کہ ضعیفوں کے
متعلق بھی تاکید کی گئی ہے۔ایک جگہ پرباری تعالیٰ کا انداز بدل رہا ہے ،مگر
پیغام اسی پیرائے میں ہے کہ” اگر میں بھوکا ہوجاؤں ،توکیا تم مجھے کھلاﺅگے؟
میری پوشاک کی ضرورت پوری کروگے؟“ وغیرہ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا
کو کھانے کی ضرور ت ہے؟ یاکیاوہ پہناوے کا محتاج ہے؟اللہ تبارک و تعالیٰ ان
چیزوں سے مبّرا ہے۔مگر ان ارشادات کی فلاسفی یہ ہے اورپیغام یہ دیا جارہا
ہے کہ اگر میرے محتاج، ضرورت مند بندوں کی کوئی صاحب حیثیت مدد کرے، دلجوئی
کرے، تو گویا میری مدد کے مترادف ہے۔یہ حق الناس کا ایک اہم ترین پہلو ہے،
جس پر ہمارے معاشرے میں اُ س کی مقصدیت کو پورا کرنے کے جذبے کے ساتھ عمل
نہیں ہورہا ہے،بلکہ اس جانب توجہ بہت کم دی جارہی ہے۔افسوس ہم یہ نہیں
سوچتے ہیں کہ جب ہم بچے تھے، چلنے پھرنے ،کھانے پینے کے قابل نہیں تھے ،تو
ہمارے والدین کی خصوصی توجہ کی وجہ سے ہی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے
قابل ہوئے۔ ہمارے لیے یہ کتنی بڑی مثال ہے، جبکہ ہر انسان کو بچپن کے مراحل
سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمیں تو ہر کمزور انسان کی مدد کرکے خوش ہونا چاہیے،بلکہ
ہونا تو یہ چاہیے کہ جو شخص ،جس قسم کی مدد کرنے کا اہل ہو، وہ مدد فراہم
کرنے کے لیے ،خود تلاش کرے کہ مستحقین میں بھی کون زیادہ مستحق ہے۔اگر میں
اس کی تفصیل میں جانے لگوں تو بات لمبی ہوجائے گی،مگر یہاں گفتگو کا عنوان
خصوصی افراد ہیں۔ اس عنوان کو مزید سہل بنانے کے لیے ہم آئینے کی مثال دیتے
ہیں۔ایک طرف حضرت انسان ہے تو دوسری جانب ایک بے جان چیز کانچ کا
ٹکڑا(آئینہ)۔ جب بھی انسان اس کانچ کے ٹکڑے کو دیکھتا ہے، تواُسے اپنے چہرے
پر لگا ہوا داغ، نشان، اُلجھے بال،بدصورتی یا چہرے کا حُسن سب کچھ دکھاتا
ہے، آئینے کو دیکھ کر ہی نظر آتا ہے کہ چہرے کی کس جانب توجہ کی ضرورت
ہے۔یعنی کانچ کے ٹکڑے کو دیکھ کر انسان اپنا حُلیہ درست کر کے معاشرے میں
نکلتا ہے ،جس طرح آئینہ ہماری ظاہری خامیوں کمزوریوں کو نمایاں کرتا ہے اور
ہم ان خامیوں کو ٹھیک کر لیتے ہیں،بالکل اسی طرح خصوصی افراد کے سامنے ہم
نہ صرف اُس آئینے کی مانند ہیں، بلکہ آئینہ اور انسان دونوں کا کردار ہم
ادا کرسکتے ہیں۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں اور استطاعت کے مطابق توجہ بھی دے
سکتے ہیں۔آج کا انسان زیادہ تر اپنی ذات کے محور کے گردہی گھومتا ہے۔
نفسانی خواہشات لا محدود ہونے کی بناءپر ،ہم ضرورت مند انسانوں کو نظر
انداز کرتے ہیں۔ ہم جب بازار میں چلتے ہیں ،توہمیں دکھائی دیتا ہے کہ قدم
قدم پر کوئی اپنی زندگی کی بقاءکے لیے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے، کوئی روڈ
پار کرنے کے لیے کسی مدد کا طلب گار ہے ،کسی کے اعضاءمیں کمزوری ہے، تو بعض
روشنی سے محروم ہیں۔ کیا یہ معذورین خدا کی مخلوق نہیں ہیں؟ کیا ان خصوصی
افراد کا ہم پر حق نہیں ،کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم حسب حیثیت ان کی مدد
کریں؟ کیا اسلام میں اس بات کی تاکید نہیں گئی کہ ضرورت مندوں کی مدد اجر
عظیم ہے۔اُمراءکے مال پرغرباءاور خصوصی افراد کا باقاعدہ حق ہے۔یہاں پر
ماشاءاللہ سے NGO'sمختلف حوالوں سے کام کر رہی ہیں،مگر خصوصی افراد کے
حوالے سے دلچسپی بہت کم نظر آتی ہے۔ اب سرکاری سطح پر بھی اس جانب توجہ دی
جارہی ہے، مگر اس توجہ میںجوش،اورولولے کا گراف اتنا نہیں بڑھا ہے ،جتنا
ایک اسلامی اسٹیٹ کے ذمہ داران کے ہاں ہونا چاہئے۔خصوصی تعلیم پر کام ہو
رہا ہے، اس شعبے میںماہر اساتذہ کرام اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گلگت
بلتستان میں خصوصی افراد کی جانب زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے
کہ ہمارا معاشرہ ،خصوصی افراد کو معاشرے پر بوجھ سمجھتا ہے۔ دوسرے ملکوں
میں خصوصی افراد کی بھر پور حوصلہ افزائی اور تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ
معاشرے کے وہ خصوصی افراد جس کو ہم ناکارہ سمجھ کر پیٹھ پھیرے ہو ئے ہیں ،وہی
انسان نہ صرف اپنا بوجھ اُٹھانے کے قابل ہوئے ہیں ،بلکہ دوسروں کا بھی دکھ
درد بانٹنے کے اہل بھی ہورہے ہیں۔ اور قدرت کی شان دیکھیے کہ عام انسان کی
نسبت خصوصی افراد کی حسیات تیز ہوا کرتی ہے اور سیکھنے کی صلاحیت زیادہ
ہوتی ہے۔کسی گھر میں اس طرح کا بچہ جنم لیتا ہے ،تو اگر والدین ابتداءسے ان
پر خصوصی توجہ دیں تو ان کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں۔ پھر کسی ادارے میں داخل
کرنے کے بعد اساتذہ یا دیکھ بھال کرنے والے ذمہ دار افراد کو بھی اتنی دقت
اُٹھانی نہیں پڑتی ہے۔اس کے برعکس جب گھر کے افراد ہی توجہ نہیں دیں گے
اورگلی، محلے میں ان کا مذاق اُڑایا جائےگا تو وہ بچارے مزید احساس کمتری
کا شکار ہوجائیں گے،ان کے ساتھ خصوصی توجہ اور پیار سے پیش آنے کی ضرورت ہے
۔جس طرح ایک تندرست بچے کو اسکول میںداخل کروانے سے قبل الف بے، گنتی،
اورAbcسکھا ئی جاتی ہے ،اسی انداز سے ہی خصوصی بچوں کو بھی گھر میںتربیت
دینے کی اپنی سی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔اداروں میں بھی ان کی تربیت اس طرح
ہو کہ ان کے ذہن میں یہ بات ڈالی جائے کہ وہ بھی معاشرے کے دیگر افراد کے
برابر ہیں اور وہ از خود یہ سوچیں گے کہ ان کے اندر بہت کچھ کرنے کی بے
پناہ صلاحیت موجود ہے۔روحانی معالج اور علم نفسیات کے ماہرین نے کہا ہے کہ
انسان کے اندر وہ صلاحیتیں خدا نے ڈالی ہیں اگر انسان باریک بینی سے غور
کرے تو اپنی بے شمار بیماریوں پر خود قابو پاسکتا ہے۔خصوصی افراد کی توجہ
کےلئے ان دو شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی مدد کی اشد ضرورت ہوا کرتی
ہے۔زندہ مثال آپ کے سامنے ہے اس پسماندہ خطے کے افراد نے بھی بین الاقوامی
پروگراموں اور مقابلوں میں شامل ہو کر ملک کانام روشن کر رکھا ہے۔ ان افراد
کے درجہ بندی کے لحاظ سے ادارے ہونے چاہئےں جس طرح ایک عام طالب علم
پرائمری کے بعد ہائی اسکول اور اسکے بعد کالج، یونیورسٹی وغیر مرحلے دار
پہنچ جاتا ہے ،ان کی تعلیم و تربیت بھی اسی انداز میں ہو تو یہ افراد دنیا
میںمقام اور نام پیدا کرسکتے ہیں۔ان افراد کا پیدا ہونا ایک طرح سے ہمارا
امتحان بھی ہے آیا ہم قرآن و حدیث اور اسلامی اصولوں پر کس قدر عمل پیرا
ہیں۔پڑھنے رٹہ لگانے، سمجھنے اور عمل کرنے میں بڑا فرق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ
ہر نایاب چیز کی قدر کی جاتی ہے اور فطری طور پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ان
پر توجہ ایک عظیم عبادت ہے۔پھر کیوں نہ ان افراد کا سہارا بنیں جو ہمارے
مدد کے منتظر ہیں، انسانی خدمت ہی عین بقاءہے، اور شاعر نے بھی کیا خوب کہا
ہے :
درد دل کے واسطے پید ا کیا یہ انساں
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کُّرو بیاں
اللہ ہم سب کو دوسروں کی خدمت کا جذبہ اور توفیق عطا فرمائیں (آمین) |