ایک زمانہ تھا جب یہ کہاوت زبان
زد عام تھی کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی کی
بھی بیٹی کی عزت پورے گاﺅں یا علاقے کی سانجھی عزت و غیرت ہوا کرتی تھی اگر
کسی کا بدمعاش بیٹا کسی کی بیٹی کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا تھا تو اس بدمعاش
کا خاندان یا اس کا باپ بھی اسے سزا دینے میں پیش پیش ہوا کرتا تھا۔ دوسرے
کی بیٹی کو بھی اپنی بیٹی سمجھ کر اس کی عزت کی جاتی تھی اور اس کی عزت کی
نگہبانی کی جاتی تھی۔ اگر محلے میں کسی بچی کی شادی ہوتی تھی تو سب ہی محلے
والے اس شادی کو اپنی بیٹی یا بہن کی شادی سمجھ کر کام کیا کرتے تھے اور
اپنے گھر کا سارا سامان بھی اس شادی کے لئے مہیا کرنے کو تیار رہا کرتے تھے۔
میڈیا یا تو ہوتا نہیں تھا، اگر ہوتا بھی تھا تو اتنا ”مادر پدر“ آزاد
بہرحال نہیں ہوتا تھا جس کے ”شر“ کی وجہ سے نہ تو بیٹیوں اور بہنوں کو خود
اپنی عزت کا احساس رہا اور نہ ہی کسی دوسرے کی بیٹی یا بہن کو اپنی بیٹی یا
بہن سمجھنا آسان رہا۔ میں میڈیا کی آزادی کے خلاف نہیں ہوں لیکن اس میں
عریانی و فحاشی یا ایسے پروگرامز کو نہیں ہونا چاہئے جن کو دیکھ کر مذہبی
حوالے سے شرمندگی محسوس ہو اور بیٹیوں کو ورغلایا جاسکے۔
گذشتہ روز پاکستان میں تقریباً ملتے جلتے دو افسوسناک واقعات پیش آئے۔ ایک
لاہور میں جبکہ دوسرا حیدر آباد میں۔ لاہور کے کنیئرڈ کالج کے باہر طالبات
کے لئے بنائے گئے پل پر ایک نوجوان نے ایک طالبہ کو گولیاں مار کر جاں بحق
کردیا اور پھر اسی پستول کے ساتھ اپنی زندگی کا خاتمہ بھی کرلیا۔ میڈیا
رپورٹس کے مطابق وہ لڑکا متوفیہ کا پیچھا کرتا تھا اور گذشتہ روز جیل روڈ
کو پیدل پار کرنے والوں کے لئے بنائے گئے پل پر اس کا انتظار کررہا تھا۔
جیسے ہی اس بچی نے سیڑھیاں عبور کیں تو اس نے اس کا راستہ روکا اور پھر
پستول چلنے کی آواز سنائی دی، جب وہاں لوگ پہنچے تو وہ بچی خون میں لت پت
اپنی جان دے چکی تھی جبکہ قاتل لڑکا بھی جان کنی کی کیفیت میں تھا۔ میڈیا
میں یہ خبریں بغیر تحقیق کے چلنا شروع ہوگئیں کہ وہ دونوں کلاس فیلوز تھے
اور لڑکے کے گھر والوں نے لڑکی کا رشتہ بھی مانگا تھا جبکہ کسی بھی حوالے
سے یہ دونوں باتیں ثابت نہ ہوسکیں۔ نہ تو لڑکی کے سکول سے دونوں کے کلاس
فیلو ہونے کا ثبوت ملا ہے نہ ہی لڑکے کے خاندان والوں نے رشتے کی بات کی
تصدیق کی، تو نہ جانے ٹی وی چینلز والوں کو کہاں سے الہام ہوا کہ وہ دونوں
کلاس فیلوز بھی تھے اور رشتے کا بھی کوئی سلسلہ تھا۔ خبر بنانے سے پہلے صرف
اپنے چینل کی ریٹنگ اور خبر میں چٹخارے کا ہی اہتمام لازمی نہیں ہونا چاہئے
بلکہ کچھ اخلاقی اور مذہبی اقدار کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے، ایک تو لڑکی
کے اہل خانہ اور خاندان پر اس کے قتل کی صورت میں پہاڑ ٹوٹ پڑا اور اب لوگ
اس مقتولہ کے کردار کے بارے میں بھی چہ مگوئیاں کررہے ہیں، خبر بنانے اور
چلانے سے پہلے ایک نظر اپنی بیٹیوں کو بھی دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں!
کسی بھی طالبہ کو تنگ کرنے، اس کا پیچھا کرنے اور قتل و غارت گری کے یہ
پہلے واقعات نہیں، اس سے پہلے بھی ایسے بے شمار واقعات ہوچکے ہیں اور
معاشرتی اقدار کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ واقعات شائد آخری بھی نہ ہوں
لیکن کیا اس طرح کے واقعات ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی نہیں؟ کیا والدین،
اساتذہ، اہل خانہ اور اس معاشرے کو ہوش کے ناخن نہیں لینے چاہئیں؟ کیا اب
بھی ہمیں مغرب کی اندھی تقلید کی طرف رواں دواں رہنا چاہئے؟ ان سب سوالوں
کے جواب تلاش کرنے کے لئے کسی سائنسدان کی عقل ہرگز درکار نہیں۔ اگر ہم
اپنی اصل کی طرف لوٹ جائیں، اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو مشعل
راہ بنا لیں، اگر ہم دوسروں کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھنا شروع کردیں،
اگر ہم پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر اپنے معاشرے کی ہیئت کے مطابق کچھ
پابندیاں عائد کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو شائد ہم مغرب کی اندھا دھند
تقلید سے بچ جائیں، شائد ہم اپنی بیٹیوں کو اس طرح سر راہ گولیوں کا نشانہ
بنتے نہ دیکھیں۔
اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے کچھ کام تو حکومت کے کرنے کے ہوتے
ہیںجبکہ کچھ کام انفرادی سطح پر والدین اور اجتماعی سطح پر پورے معاشرے کو
سرانجام دینے پڑتے ہیں۔ ہم معاشرتی انحطاط کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ
جہاں نہ تو حکومت اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام دے رہی ہے نہ ہی ہم لوگ
اپنے فرائض کو پہچان پا رہے ہیں۔ گھروں میں تربیت اور تعلیمی اداروں میں
تعلیم کا فقدان ہمیں مجموعی طور پر ایسی اخلاقی پستیوں میں دھکیل رہا ہے
جہاں سے ہم اکیلے اپنے زور بازو سے ہرگز نہیں نکل سکتے۔ ہمیں اس صورتحال
میں یقینا قران و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ
اگر ضلعی حکومت نے کنیئرڈ ، لاہور کالج اور طالبات کے کچھ دوسرے تعلیمی
اداروں کے باہر اوور ہیڈ برجز بنا ہی دئےے ہیں تو وہاں سے درس و تدریس کے
اوقات میں طالبات کے علاوہ باقی لوگوں کے گزرنے پر پابندی ہونی چاہئے،
کیونکہ وہاں اکثر چھیڑ خانی کے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں اور جب کوئی اکا
دکا طالبات وہاں سے گذرتی ہیں تو کسی اوباش کے لئے بھی موقع ہوتا ہے کہ وہ
طالبات کو ہراساں کرسکے کیونکہ نہ تو پولیس اور نہ ہی کوئی دوسرا ادارہ
اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے اس لئے اس طرح کے جتنے مواقع ہیں
ان کو اگر صد فیصد ختم نہیں کیا جاسکتا تو محدود ضرور کردینا چاہئے! |