جب ڈانسنگ فلور پر پاؤں ناچتے ہیں اور جسم تھرکتے ہیں -
تو راجاؤں ، مہاراجاؤں اور نوابوں کے درباروں کی شان یاد آجاتی ہے جہاں
گانے ، ناچنے والیاں طوائفیں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مجرا کیا کرتی تھیں
- دربار میں لگی ہوئی شاہی کرسیوں پر بیٹھے درباری یہ تماشا دیکھا کرتے تھے
- شادی بیاہ کی تقریبات میں نواب طوائفوں کو بلوایا کرتے اور انکے رقص سے
لطف اندوز ہوتے تھے ۔ ان طوائفوں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا ۔ ان
میں سے کچھ دربار سے منسلک ہوجاتی تھیں اور ان کا روزگار لگ جاتا تھا -
انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو ان طوائفوں سے مال و دولت نکلوانے کے
لیے ( جو ان طوائفوں نے بہت محنت سے ناچ کر اور گانے سنا کر جمع کیا تھا )
بہت حربے آزمائے -اسی سوچ کے تحت 1857 کی جنگ آزادی میں ان طوائفوں کو بھی
غدار قرار دے دیا گیا ان کے کوٹھے غیر آباد ہوگئے یہ قسمت کی ماریاں جان
بچا کر دوسرے شہروں میں بھاگ گئی کچھ ماری گئی - کچھ کو فرنگیوں نے غلام
بنا لیا -
انگریزوں کے دور حکومت میں ایک دفعہ انگریز وائسرائے نے سر سید احمد خان سے
کہا تھا کہ میری بیگم آپ کی بیگم سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں جس پر سر سید
احمد خان نے فرمایا "ہماری خواتین کا بھی آپ کی خواتین سے پردہ ہے - "
اس مسلم قوم کی خواتین کا آج یہ عالم ہے دوپٹہ ناپید ہوگیا ہے
اذان کے وقت دوپٹہ سر پر لینے کی روایت دم توڑتی جارہی ہے
عورت نے دوپٹے کو اضافی بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا ہے فی زمانہ دوپٹہ جاہل
یا غریب ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے -دلہن کی والدہ جو کہ دلہن کی تربیت
کیا کرتی تھیں گھر گر ہستی کے ہنر سکھایا کرتی تھی آج وہ ناچ گانے کی تربیت
کاآغاز شادی سے ایک ماہ پہلے شروع کردیتی ہیں -جن کی گود میں نسلیں پرورش
پاتی ہیں - انہیں شعور ہی نہیں ہے کہ نکاح کا مقصد کیا ہے ؟
1857 کی جنگ آزادی کے بعد طوائفوں کا اپنے جسم کی نمائش سے پیسہ کمانے کا
فن وقتی طور پر زوال کا شکار ہوگیا پھر ہندوستان میں سینما آیا - فلمیں
بننے لگی تو ان طوائفوں کے دن بھی پھر گئے یہ اداکاری کے جوہر دکھانے لگی -
اب فلمی ہیروئینوں کو دولت مند رئیس شادیوں میں بلانے لگے اس طرح ان کے فن
کی قدر ہونے لگی اور روزی روٹی بھی چلنے لگی -
پھر سماج نے نئی تہذیب کو روشناس کروایا شادی ہال میں ڈانسنگ فلور بن گئے
مہندی کے نام پر جو کہ مسلمانوں کی رسم ہی نہیں ہے - ان ڈانسنگ فلورز پر
اصل حسب نسب والی خاندانی شریف پڑھی لکھی خواتین اور نوجوان لڑکیاں ناچنے
لگی اب داد دینے والے ان کے باپ ،بھائی ،شوہر ، خاندان کے افراد اور نئے
سسرالی رشتہ دار ہوگئے - شرم و حیا کا جنازہ نکل گیا - دلہن جس کا تصور شرم
و حیا سے وابستہ ہے وہ ناچنے لگی اور اس کا ساتھ اس کی کزنز دینے لگے جن
میں لڑکے لڑکیاں شامل ہیں - دلہا دلہن کپل ڈانس کرنے لگے - دلہن کے والدین
اور دیگر رشتہ دار بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالنے لگے - دوسری طرف لڑکے کی
شادی ہے تو ادھر بھی یہ ہی صورت حال ہے -
افسوس کا مقام یہ نہیں ہے کہ حیا کا جنازہ نکل گیا افسوس ناک صورت حال یہ
ہے کہ ہم تیزی سے اسلامی اور مشرق روایات کو بدل رہے ہیں
شادی کی رسومات اب دس دن تک چلتی ہیں ڈھولکی کے نام سے شروع ہونے والی یہ
خرافات مایوں اور دیگر رسومات کے نام پر وقت اور پیسے کا زیاں ہے -
نکاح مسجد میں کیا جاتا ہے جہاں خواتین بن سنور کے بے پردہ ہوکر فوٹو سیشن
کرواتی ہیں - یہ کیا نکاح کا اسلامی طریقہ ہے ؟
جس قوم میں سے غیرت نکل جائے اس قوم میں کچھ باقی نہیں رہتا - ہندوستان پر
مغلوں کا اقتدار اس دن ہی ختم ہوگیا تھا جس دن "غلام قادر روہیلہ " نے دہلی
کے دربار خاص میں بادشاہ وقت "شاہ عالم ثانی " کی آنکھیں نکلوا دیں او مغل
شاہزادیوں کو ناچنے کا حکم دیا تھا - جس کی تکمیل کی گئی-
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
اسلام دشمن عناصر کے حملوں میں سے سب سے زیادہ سخت حملہ یہ ہے کہ " وہ آپ
کو اپنے جیسا بنا لے"۔
مسلمان اپنی تہذیب ، روایت ، اسلامی تشخص عقیدہ ، نظریہ سب تبدیل کرلے -طرز
فکر سے طرز زندگی تک سب غیر کی تقلید کے تابع ہوجائے -
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس تیزی سے معاشرے کی اقدار و روایات بدل رہی ہیں
اگلے چند برس میں ہم کہاں کھڑے ہونگے !
--
|