پاکستان گزشتہ چالیس سالوں میں سیاسی کرپشن، لسانیت، اور
فرقہ واریت کے دلدل میں دھنستا چلا گیا ہے۔ تاہم، سب سے زیادہ خطرناک اثر
ان جماعتوں نے ڈالا جو عوام کی فلاح و بہبود کا نعرہ لگا کر اقتدار میں
آئیں اور معاشرتی اقدار کو مسخ کر دیا۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، اور جمعیت
علمائے اسلام جیسی بڑی جماعتوں نے نہ صرف سیاسی نظام کو کرپشن کا شکار کیا
بلکہ حلال و حرام کے بنیادی نظریے کو بھی متزلزل کر دیا۔
ان چار دہائیوں میں حکومتی ادارے، تعلیمی نظام، حتیٰ کہ والدین بھی اپنی
بنیادی ذمہ داریوں سے غافل رہے۔ درسگاہوں میں طلبہ کی کردار سازی اور ان کی
اخلاقی تربیت پر توجہ دینے کے بجائے صرف مال و دولت کمانے پر زور دیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان نسل کے لیے پیسہ ہی سب کچھ بن گیا، خواہ وہ کسی
بھی طریقے سے حاصل کیا جائے۔
یہ زوال صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ پورا سماج اس کا شکار ہو
گیا۔ آج کے دور میں کرپٹ افراد، جعلساز، منشیات فروش، اور دیگر غیر قانونی
دھندوں میں ملوث لوگ سب سے زیادہ عزت دار سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس
دولت ہے۔ بدقسمتی سے، اخلاقیات اور دیانت داری جیسے بنیادی اصول معاشرے میں
اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔
اس اخلاقی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی نظام کی ناکامی، والدین کی عدم
توجہی، اور حکومتی اداروں کی بے حسی ہے۔ جب کسی معاشرے میں دولت ہی سب کچھ
بن جائے اور حلال و حرام میں تمیز ختم ہو جائے تو وہاں انحطاط ناگزیر ہو
جاتا ہے۔
پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے ایک ہمہ گیر اصلاحی تحریک کی ضرورت
ہے۔ تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کو لازمی بنایا جائے، والدین اپنی
اولاد کی صحیح تربیت پر توجہ دیں، اور حکومتی ادارے کرپشن اور ناجائز دولت
کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور
ایسی اقدار کو فروغ دینا چاہیے جو نوجوان نسل میں دیانت داری، امانت اور
حلال رزق کی اہمیت اجاگر کریں۔
عوام کو بھی چاہیے کہ وہ کرپٹ عناصر کی عزت و تکریم کے بجائے ایمانداری اور
دیانت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ اگر ہم اپنی ترجیحات کو درست سمت میں
نہیں لے کر گئے، تو ہمارا معاشرہ مزید زوال پذیر ہوتا رہے گا۔ اصلاح کی طرف
پہلا قدم خوداحتسابی اور اجتماعی شعور کی بیداری ہے۔
|