فتنہ الخوارج کسے کہتے ہیں؟

فتنے کے معنی ہیں شر انگیزی۔ سرکشی یا بغاوت کے ہیں جبکہ خوارج خارج کی جمع ہے جوخروج سے مشتق ہے ،کیونکہ ان کایہ نام ان کے خروج کی وجہ سے پڑاہے ، چاہے دین سے نکل جانے کی وجہ سے یا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کی وجہ سے خواہ مسلمانوں کے خلاف خروج کی وجہ سے۔ ہر وہ شخص جو کسی امام خلاف (بغاوت) کرے جس پر مسلمانوں کی ایک جماعت متفق ہو وہ خارجی ہوگا چاہے ایسے اشخاص صحابہ کرام کے خلاف ہوں تابعین یا بعد کے خلفاء کے خلاف ہوں۔ خوارج وہ لوگ ہیں جو کسی بھی کبیرہ گناہ پر اہل ایمان کو کافر شمار کریں یا اپنی عوام پر ظلم و زیادتی کریں یا غلط تشریح کرتے ہوں۔ روز اول سے فتنہ و فساد کی کئی شکلیں رہی ہیں جس میں سے ایک جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھی ہمارے ذہنوں میں میں اجاگر ہے۔ قران پاک میں اللہ تعالی نے فتنہ فساد کو قتل و خون ریزی سے بڑھ کر جرم قرار دیا ہے۔

میری نظر میں منفی سوچ کو پھیلانا اور اس کی اندھی تقلید کرنا فتنے کے زمرے میں اتا ہے. بغیر کسی شرعی عذر کے راستوں پر بیٹھنا اور نقل و حمل میں رکاوٹ پیدا کرنا فتنوں کے زمروں میں اتا ہے. جیسا کہ کچھ دن پہلے جعفر ایکسپریس میں شر پسندوں نے عوتوں اور بچوں کو یارغمال بنایا تاکہ اپنے ناپاک مقاصد حاصل کیے جا سگے۔ فتنوں اور خوارج کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں اور ان کی مختلف شکلیں بھی ہو سکتی ہیں مصلا ہو کر بھی اور اپنے نظریات دوسروں پہ تھوپنے کی صورت میں بھی. ان کی کئی تنظیمیں بھی ہو سکتی ہیں اور ان تنظیموں کے مختلف نام ہو سکتے ہیں شروع میں یہ لوگ اپنے آپ کو بہت ہی ملن سار اور مخلوق کے ہمدرد کہلانا پسند کرتے ہے یہ اسلام کی تشریح اپنے طور پر کرنا پسند کرتے ہیں اور دوسروں پہ وہی نظریات تھوپنا پسند کرتے ہیں. ان لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ یہ ریاست کی قوانین کو کچھ نہیں سمجھتے. یہاں پر میں بلوچستان لبریشن آرمی کا تذکرہ کروں گا جو اپنے اپ کو ریاست سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اور یہ تنظیم علیحدگی پسند شمار کی جاتی ہے ہر مجرمانہ فعل کے بعد وہ اس کی ذمہ داری بھی قبول کر لیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ فتنہ الخوارج کے زمرے میں آتے ہیں۔

ان کی دوسری قسم انتہائی شدید نوعیت کی ہے جس میں یہ مختلف علماء کو مہارت وقابل بناتے ہیں تاکہ یہ اپنے نظریات اچھی طرح لوگوں کے ذہن میں پرو سکیں. یہ کسی صورت کسی دوسرے فرقے کی بات کو تسلیم نہیں کرتے. اور نہ اپنے سے اوپر کسی کو سمجھتے ہیں. اس وجہ سے ان کو دور حاضر کا فتنہ قرار دیا گیا ہے جس کا قلم کمان کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے .

اس دور جدید میں فتنہ الخوارج کی تیسری قسم کے جو لوگ ہیں وہ معاشرے میں حقیقی معنوں میں فتنہ اور فساد پھیلا رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک جماعت اسلحہ سے لیس ہو کر لوگوں کو قتل بھی کرتی ہے اور لوگوں کی جان مال کو نقصان بھی پہنچاتی ہے مزید یہ کہ انہی کی ایک اور جماعت جو کہ اپنی ترش زبانی اور اسلامی واقعات کا غلط انداز میں تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ اور اپنی بات کو ہر انداز سے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ علماء کے لبادے میں بھی ہو سکتے ہیں, اینکروں کی شکل میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اور موٹیویشن سپیکروں کے لبادے میں بھی۔ کم فہم لوگ یا کم علم رکھنے والے حضرات ان کے شکنجے کا بہترین شکار ہوتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو یہ اپنی ہمدردی, میٹھے الفاظ اور من پسند اسلامی واقعات کو پیش کر کے ان کی ہمدردیاں بٹور لیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کو اپنے گھناؤے مقاصد یا ریاست کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ ان کے بنائے ہوئے ذہنی سانچے میں ڈھل جاتے ہیں پھر دوبارہ ان کا ہٹنا یا پلٹنا بہت مشکل ہوتا ہے. مثال کے طور پر جنگ عظیم دوم میں جرمنی کے لوگوں کی ذہنی اصلاح کا کام اور انہیں جنگ سے دور رکھنا ایک مشکل ترین عمل تھا. کیونکہ وہ لوگ سمجھتے تھے ہم سے بہتر قوم ہم سے بہتر لوگ اس دنیا میں نہیں رہتے ایسے لوگوں کی اصلاح ایک بہت مشکل عمل ہے. ایسے تمام لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جو لوگ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں فتنہ انگیزی کرتے ہیں یا ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے یا اپنے گھٹیا نظریات کا فروغ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ اور رسول, اور ملک کے خلاف استعمال کر سکیں. سورہ توبہ اور سورہ انفال کے مطابق ایسے لوگوں کو قتل کر دینا چاہیے.
تحریر: شاہنواز بخاری
 

Shah Nawaz Bokhari
About the Author: Shah Nawaz Bokhari Read More Articles by Shah Nawaz Bokhari: 2 Articles with 397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.