خدا کے لیے کوشش کریں کہ ہم اپنے رشتوں کو جوڑسکیں

آج کل کی مشینی دور کہلو یا نفسانفسی میں انسان نے اپنے آپ کو رشتہ داروں سے تو دور ہوتا چلا ہی جارہا ہے اب تو خونی رشتوں سے بھی اتنے فاصلے بڑھ رہے ہیں کہ شاید یہ کبھی بچپن میں ایک چھت کے تلے رہے نہیں اور اب تو یہ دور آگیا کہ محلہ میں بھی جو کبھی ایک دوسرے کے دُکھ درد میں سانجے ہوتے تھے وہ بھی اب دور ہوتے جارہے ہیں.
آج جب میں رات سونے بیٹھا تو مُجھے پاکستان کے مایہ ناز رائٹر اشفاق مرحوم کی ایک یادگار تحریر یاد آگئی جس میں اشفاق صاحب مرحوم نے کس طرح بچوں کی معصومانہ گفتگو سے کہ وہ غمی و خوشی میں کئی عرصہ بعد ملنے کو ہی تفریح بنالیا ان بچوں کو دیر بعد اپنے کزنز سے ملنے میں کتنی خوشی محسوس کرتے ہیں ہمیں بھی چاہیے اپنے رشتہ داروں سے ملنا چاہیے اتنا فاصلہ نہ ہونا چاہیے کہ بس یہ رشتہ صرف نام کے رہے جایں اور آنے والی نئی نسل ان کو بھی کہیں سائیڈ پر رکھ دئے.

(اشفاق احمد مرحوم کی ایک یادگار تحریر )

ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے یا ان کے جانے کا وقت آجائے.
"اشفاق احمد" کہتے ہیں:
ایک فوتگی کے موقع پر میں نیم غنودگی میں کچھ سویا ہوا تھا اور کچھ جاگا ہوا نیم دراز سا پڑا تھا۔
وہاں بچے بھی تھے جو آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک بچے کی بات نے مجھے چونکا دیا وہ کہہ رہا تھا،
کہ"کوئی فوت ہوجائے تو بڑا مزہ آتا ہے۔ ہم سب اکٹھے ہوجاتے ہیں اور سارے رشتہ دار ملتے ہیں."
پھر ایک بچے نے کہا ، کہ
"اب پتا نہیں کون فوت ہوگا،
نانا ناصر کافی بوڑھے ہوچکے ہیں، ان کی سفید داڑھی ہے شاید اب وہ فوت ہوں گے۔
اس پر جھگڑا کھڑا ہوگیا اور وہ آپس میں بحث کرنے لگے۔ کچھ بچوں کا موقف تھا کہ پھوپھی زہرا کافی بوڑھی ہوگئی ہیں وہ جب فوت ہوں گی تو ہم ان شاءاللہ فیصل آباد جائیں گے اور وہاں ملیں گے اور خوب کھیلیں گے. "
خواتین و حضرات!
مَیں آپ کو ایک خوشخبری دوں کہ اس بحث میں میرا نام بھی آیا۔
میری بھانجی کی چھوٹی بیٹی جو بہت چھوٹی ہے اس نے کہا کہ"نانا اشفاق بھی بہت بوڑھے ہوچکے ہیں."
خواتین و حضرات! شاید مَیں چونکا بھی اس کی بات سن کر ہی تھا. جو میرے حمایتی بچے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ جب نانا اشفاق فوت ہوں گے تو بہت رونق لگے گی کیونکہ یہ بڑے مشہور ہیں۔
جب بچوں کا جھگڑا کچھ بڑھ گیا اور ان میں تلخی بڑھنے لگی تو ایک بچے نے کہا کہ"جب نانا اشفاق فوت ہوں گے تو گورنر آئیں گے۔
اس پر ایک بچے نے کہا کہ نہیں گورنر نہیں آئیں گے بلکہ وہ پھولوں کی ایک چادر بھیج دیں گے کیونکہ گورنر بہت مصروف ہوتا ہے۔ تمھارے دادا یا نانا ابو اتنے بھی بڑے آدمی نہیں کہ ان کے فوت ہوجانے پر گورنر آئیں گے."
وہ بچے بڑے تلخ، سنجیدہ اور گہری سوج بچار کے ساتھ آئندہ ملنے کا پروگرام بنارہے تھے۔ ظاہر ہے بچوں کو تو اپنے دوستوں سے ملنے کی بڑی آرزو ہوتی ہے نا!
ہم بڑوں نے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ ہم رشتے بھول کر کچھ زیادہ ہی کاروباری ہوگئے ہیں۔
چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں حالانکہ چیزیں ساتھ نہیں دیتیں۔ ہم جانتے ہیں کہ رشتے طاقتور ہوتے ہیں اور ہم رشتوں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
خدا کے لیے کوشش کریں کہ ہم اپنے رشتوں کو جوڑسکیں ایسی خلیج حائل نہ ہونے دیں کہ ملاقاتیں صرف کسی کے فوت ہوجانے کی مرہون منت ہی رہ جائیں.
کیا ہم ان بچوں کی طرح اس بات کا انتظار کریں گے کہ کوئی مرے پھر ہم مجبوری کے ساتھ لاٹھی ٹیکتے ہوئے یا چھڑی پکڑے وہاں جائیں۔
جب ہم کہیں جائیں تو یہ فخر دل میں ہونا چاہیے کہ مَیں ایک شخص سے ملنے جارہا ہوں. مجھے اس سے کوئی دنیاوی غرض نہیں ہے۔ اس کے پاس اس لیے جارہا ہوں کہ وہ مجھے بہت پیارا ہے۔ چاہے ہم اس کام کے لیے کم وقت دیں لیکن دیں ضرور۔

 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 447 Articles with 251859 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.