چینی جدیدیت سے عالمی ترقی کا نیا رخ

چین کے حال ہی میں اختتام پزیر ہونے والے دو اجلاسوں میں زیرِ بحث چینی جدیدیت نے یک بار پھر دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے۔ یہ جدیدیت نہ صرف چین کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں میں تیزی لانے کا موجب ہے بلکہ اس کے ذریعے عالمی سطح پر ترقی کے نئے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ کھلے پن اور باہمی تعاون پر مبنی یہ ماڈل دنیا کو مشترکہ خوشحالی کی طرف لے جا رہا ہے۔

آج، چین عالمی معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو دنیا کی کل معیشت کا 18 فیصد حصہ ہے۔ ملک کی مینوفیکچرنگ صنعت دنیا بھر میں کل پیداواری قدر کا 30 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے چین عالمی معاشی نمو میں 30 فیصد تک شراکت دار رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، چین 150 سے زائد ممالک اور خطوں کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جبکہ 2024 میں اس کی برآمدات 160 سے زیادہ ممالک میں ریکارڈ سطح تک پہنچی ہیں۔

چین کو اکثر "دنیا کی سب سے بڑی ترقی پذیر معیشت"، "دوسری بڑی معاشی طاقت"، "عالمی فیکٹری"، اور "جدت کاری کا مرکز" جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ ملک اب استحکام اور ترقی کی علامت بن چکا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والے اقتصادی فورمز اور معاہدوں میں چین کی شرکت نے اس کی حیثیت کو مزید مضبوط کیا ہے۔ مثال کے طور پر، ساتویں چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں 80 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے طے پائے، جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری سے چلنے والے اداروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

چین کی "عالمی سطح پر پیشہ ورانہ تعاون" کی پالیسیوں نے بھی بین الاقوامی منڈیوں میں نئی ٹیکنالوجیز، مصنوعات، اور خدمات کو فروغ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین عالمی پیداواری زنجیروں کا اہم حصہ بن گیا ہے، جس نے مشترکہ ترقی کے تصور کو عملی شکل دی ہے۔

تاہم ، چین ہمیشہ سے عالمی شراکت داری اور ترقی کو شیئر کرنے کا خواہاں رہا ہے اور چینی جدیدیت کا اثر صرف معیشت تک محدود نہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں چین کے انسداد غربت تجربات کو اپنایا جا رہا ہے، جبکہ کئی خطوں میں چین کی سیاسی اور معاشی پالیسیاں مکالمے کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ یہ اقدامات اس مفروضے کو چیلنج کرتے ہیں کہ جدیدیت صرف مغربی نمونوں تک محدود ہے۔

"بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو " جیسے منصوبوں کے تحت کئی ممالک نے پہلی بار جدید ریلوے نیٹ ورک اور سمندری تجارتی راستوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ ترقیاتی فنڈز کے ذریعے 160 سے زائد منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، جو کروڑوں افراد کی زندگیوں کو بہتر بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، چین نے کم ترقی یافتہ ممالک کو اپنی برآمدات پر صفر ٹیکس کی سہولت فراہم کی ہے، جو عالمی معیشت میں اشتراک کو فروغ دینے کی واضح مثال ہے۔

دوسری جانب، چین کو عالمی چیلنجز کا بھی بخوبی ادراک ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں اور ڈیجیٹل تقسیم جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے چین نے کئی اقدامات متعارف کروائے ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور مصنوعی ذہانت کی مساوی رسائی کے لیے عالمی سطح پر تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی، تنازعات کے خاتمے اور قیام امن کے لیے چین کثیرالجہتی مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

وسیع تناظر میں، بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر سے جڑے رہتے ہوئے چین کی جدیدیت کا بنیادی مقصد صرف اپنی ترقی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک متوازن اور خوشحال مستقبل کی تعمیر ہے۔ "گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو" اور "گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو" جیسے تصورات کے ذریعے چین ایک ایسی دنیا کی تشکیل میں مصروف ہے جہاں ہر ملک ترقی کی دوڑ میں برابر کا حصہ دار ہو۔ 1.4 ارب سے زائد افراد کی اس جدوجہد نے جدیدیت کے روایتی تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

چین کا یہ سفر ثابت کرتا ہے کہ ترقی کا کوئی ایک راستہ نہیں ہوتا۔ ہر قوم اپنے وسائل اور ثقافت کے مطابق اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔ چینی جدیدیت کی کہانی صرف ایک ملک کی نہیں، بلکہ پوری دنیا کی مشترکہ کامیابی ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1440 Articles with 731138 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More