چین اور عالمی سبز انقلاب کی قیادت

عہد حاضر میں بڑھتے ہوئے موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے تناظر میں گرین ترقی کا خواب ہر ملک کی کوشش ہے اورہر ایک ملک سبز منتقلی کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے ۔آج کی صورتحال واضح کرتی ہے کہ انسانیت ایک سبز انقلاب کی دہلیز پر کھڑی ہے، جو اس کی بقا اور ترقی کے راستے کو تشکیل دے گا۔ایسے میں انسانیت اور فطرت کی ہم آہنگ بقائے باہمی کے ذریعے پائیدار ترقی کا حصول آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ بن کر ابھرتا ہے۔

ایک کامیاب سبز منتقلی کے خواب کی تعبیر مستقل کوششوں اور وعدوں کی پاسداری میں مضمر ہے ، جبکہ سب سے بڑی رکاوٹیں عدم مطابقت اور ٹوٹے ہوئے وعدے ہیں۔بین الاقوامی مبصرین کے خیال میں ، ماحول دوست تبدیلی کے بارے میں بحث کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن پالیسیوں کو ٹھوس ترقیاتی نتائج میں تبدیل کرنا مشکل ثابت ہوا ہے. یہ صرف اس وقت ممکن ہوا جب چین نے سبز ترقی کی طرف فیصلہ کن قدم اٹھائے تو دنیا حقیقی معنوں میں ایک "تاریخی موڑ" پر پہنچی۔

چین اس اصول پر قائم ہے کہ ماحولیات کا تحفظ پیداواری قوتوں کے تحفظ کے مترادف ہے۔ ماحول کو بہتر بنانا ان قوتوں کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ اپنے صنعتی فریم ورک کی فعال تشکیل نو کے ذریعے، چین نے ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے درمیان تضاد کو باہمی طور پر فائدہ مند منظر نامے میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ نقطہ نظر انسانی جدیدیت کی تاریخ میں ایک نیا اور زبردست باب شامل کرتا ہے۔

اپنے قابل تجدید توانائی کے شعبے کو آگے بڑھانے کے لئے پرعزم، چین بین الاقوامی سبز تعاون کی وکالت کرتا ہے. یہ ماحولیاتی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے لئے عالمی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے ، دنیا کو سبز جدیدیت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ کوشش نہ صرف ماحولیاتی قیادت کے لئے چین کی لگن کو اجاگر کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر تبدیلی لانے میں اس کے کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

بین الاقوامی اداروں کے مطابق، آج کی دنیا میں ہر توانائی کی کہانی بنیادی طور پر چین کی کہانی بن چکی ہے۔ یہ بات چین کے ماحول دوست اقدامات اور عالمی سطح پر سبز توانائی کے فروغ میں اس کے کلیدی کردار کو ظاہر کرتی ہے۔ چین نے 100 سے زائد ممالک کے ساتھ تعاون کرکے صاف توانائی کے منصوبوں کو عملی شکل دی ہے، جس کی مثالیں دنیا بھر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

عمان کے صحراؤں میں لگے شمسی پینلز، برازیل کے جنگلات میں بجلی کی ترسیل کے نظام، قازقستان کے ونڈ فارمز، اور جنوبی افریقہ کے شمسی تھرمنل پلانٹس جیسے منصوبے چین کی عالمی شراکت داری کو ظاہر کرتے ہیں۔ افریقہ میں موسمیاتی مشاہدے کے لیے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، جزیرہ نما ممالک میں توانائی بچانے والا لائٹ سسٹم، اور آسیان ممالک میں کم کاربن پراجیکٹس جیسے اقدامات سے صاف توانائی اب "لگژری" نہیں رہی بلکہ عام لوگوں کی پہنچ میں ہے۔

گزشتہ دہائی میں سولر اور ونڈ توانائی کی لاگت میں 60 سے 80 فیصد تک کمی چین کی ٹیکنالوجی اور پیداواری صلاحیت کا نتیجہ ہے۔ 2024 میں چین سے ونڈ ٹربائن کی برآمدات میں 70 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ شمسی مصنوعات کی برآمدات مسلسل چوتھے سال 200 ارب یوآن سے تجاوز کر گئیں۔ اس کے علاوہ، لیتھیم بیٹریز کی برآمدات نے بھی ریکارڈ توڑ دیا۔ یہ اعداد و شمار چین کو توانائی کے عالمی انقلاب میں اہم کھلاڑی ثابت کرتے ہیں۔

عالمی سطح کے ساتھ ساتھ اگر چین کی داخلی کامیابیوں کو دیکھا جائے تو چین نے 2030 کا ہدف 6 سال پہلے ہی حاصل کر لیا، جس کے تحت ونڈ اور سولر توانائی کی صلاحیت 1.4 ارب کلوواٹ تک پہنچ گئی ہے۔ نئی توانائی گاڑیوں کی سالانہ پیداوار ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ جی ڈی پی فی یونٹ توانائی کا استعمال اور کاربن اخراج میں 3.8 اور 3.4 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یہ کامیابیاں چین کے ماحول دوست ترقی کے عزم کو ظاہر کرتی ہیں۔

یہ کامیابیاں ثابت کرتی ہیں کہ چین انسانی ترقی اور فطرت کے توازن کا داعی ہے۔چین کا نظریہ ہے کہ ماحول کی حفاظت دراصل معیشت کی حفاظت ہے۔ صنعتی ڈھانچے میں تبدیلی کے ذریعے چین نے ماحولیات اور ترقی کے درمیان تصادم کو تعاون میں بدل دیا ہے۔ یہ نقطہ نظر انسانی ترقی کی نئی داستان رقم کر رہا ہے۔

ایک ناگزیر سبز مستقبل کی جانب بڑھتے ہوئے دنیا اب ایک ایسے تاریخی موڑ پر کھڑی ہے جہاں صاف توانائی ہی واحد راستہ ہے۔ایسے میں چین بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ماحولیاتی تہذیب کی بنیاد رکھنے میں مصروف ہے۔ یہ کوششیں نہ صرف چین بلکہ پوری انسانیت کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔چین کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ مستقل مزاجی، ٹیکنالوجی، اور عالمی تعاون کے ذریعے ماحولیاتی چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ سبز انقلاب اب کوئی خواب نہیں، بلکہ چین کی قیادت میں یہ ایک حقیقت بنتا جا رہا ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1440 Articles with 730968 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More