کرچیاں

زندگی روز نئے اسباق دیتی ہے مگر ایک شرط ہے کہ ہم ان سے واقعی سیکھیں۔ آج کی کہانی کئی گھروں کی کہانی ہے، یہ کہانی ہے ایک خاندان کی جہاں ہر کوئی اپنی اپنی ذات میں گم ہے۔ اگر آپ کبھی گلاس میں پانی پینا چاہیں تو پانی پینے کے لیے ثابت گلاس کی ضرورت ہو گی اور اگر اس کے برعکس آپ کہیں سے جھڑے ہوئے گلاس میں پانی پیئیں گے تو آپ کو زخم آنے کا قوی امکان موجود ہے، اس کی وجہ وہ کرچیاں ہیں جو کہیں جا گری ہیں اور انھوں نے نہیں معلوم کتنے لوگوں کو کہاں کہاں زخم دیے ہوں گے۔ اپنی جگہ خالی چھوڑ گئیں ہیں، جو اب آپ کو زخمی کر دے گی۔
سعدی صاحب نہایت ہنس مکھ اور بااخلاق انسان ہیں، آپ سب سے بہت اچھے سے پیش آتے ہیں، ہر ہر جگہ اپنی اولاد کے لیے بھی موجود ہوتے ہیں، انتہائی محنت کش ہیں مگر کان کے بہت کچے اور بہت سی عادات کے ساتھ ان کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے اور وہ ہے صالحہ بیگم کی برائی۔ کوئی محفل ان کو کوئی نیا لقب دیے بغیر پوری نہیں ہوتی۔

آج شادی کو 35 برس ہو چکے ہیں، دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی کر چکے ہیں، بظاہر سب ٹھیک ہے مگر ٹھیک تو کچھ بھی نہیں۔ شادی سعدی صاحب کی رضا سے ہی ان کے والدین نے طے کی، آپ شادی کے بعد کچھ برس بس ٹھیک سے ہی رہے، مگر جب بھی کوئی لڑائی ہوتی تو اس کی وجہ کبھی کسی گھر کے مکین کی لگائی ہوئی باتیں ہوتیں یا پھر عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات ہوتے جیسے کھانے میں نمک ہلکا یا تیز ہو جانا، کسی ضروری کام میں ذرا سی تاخیر ہو جانا وغیرہ۔

صالحہ بیگم کو ان کے گھر میں اللہ میاں کی گائے کہا جاتا، لہٰذا آپ شادی کے کتنے ہی برس تک صبر سے برداشت کرتی رہیں مگر بڑھاپا بذاتِ خود ایک بیماری ہے، اس نے آپ کی برداشت کی صلاحیت پر بے حد اثر ڈالا، اور یوں ان کا غصہ بتدریج بڑھتا جا رہا تھا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سارا خاندان ایک دعوت میں موجود تھا، کھانے میں روایتی طور پر بریانی موجود تھی، سعدی صاحب زبان پر قابو نہ رکھ سکے اور بولے، "چلو آج کچھ اچھا کھانے کو تو ملا، ورنہ روز جیسا تیسا کھا کر پیٹ بھر لیتے ہیں"، ابراہیم جو صالحہ بیگم سے کافی چھوٹے تھے مگر بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ان سے محبت کرتے بولے، "لیکن میری آپا تو بہت اچھا کھانا بناتی ہیں بھائی، آپ کو اتنی شکایت کیوں ہے؟" سعدی صاحب جو مزید برداشت نہ کر سکے بولے، "جب تم لوگ آتے ہو تب ہی بناتی ہیں، انتہائی بد اخلاق، بد زبان اور ناشکری عورت ہے، زندگی کا سکون برباد کر دیا ہے، ماں باپ باندھ گئے ہیں تو برداشت کر رہا ہوں۔"

ابراہیم بہت کچھ کہنا چاہتے تھے مگر ہر بار کی طرح ان کو اشارے سے آپا نے چپ رہنے کا کہا۔ آپ تماشا تو بن ہی رہی تھیں مگر مزید بننا نہیں چاہتی تھیں۔ مختلف لوگ مختلف باتیں کرتے، کوئی سعدی صاحب کو برا بھلا کہتا تو کوئی صالحہ بیگم کو، ہر بار کی طرح اس بار بھی سب اپنے اپنے گھر لوٹ گئے مگر صالحہ بیگم اپنے ساتھ کچھ اور کرچیاں بھی چن لائیں، "غم کی کرچیاں"۔

آپ اداس رہنے لگیں، غصہ تھا کہ بڑھتا جاتا، سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ کیسے باقی کی زندگی گزاریں، آپ نے سوچا سب سوشل میڈیا چلاتے ہیں تو میں کیوں نہیں میرے پاس بھی تو فون ہے! لہٰذا آپ نے مختلف سائٹس کھولنا شروع کیں تو وہاں آپ کو ایک دینی ادارے کی ویب سائٹ مل گئی، آپ نے دیکھا کہ وہ تو گھر بیٹھے پڑھاتے ہیں اور لکھا ہوا ہے کہ "عمر کی کوئی قید نہیں اللہ سے جڑیے" آپ نے سوچا جو ہر وقت ان گھر والوں کے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی ہوں کیوں نہ اپنے لیے مصروفیت تلاش کروں کچھ دین بھی سیکھ لوں گی اور یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا کہ مجھ سے کوئی بات کرنے والا نہیں!

آپ نے ہمت کی، داخلہ لیا اور قرآن و حدیث کا علم سیکھنا شروع کر دیا، جیسے جیسے وقت گزرا آپ کو دوسری فضول سوچوں کا وقت ہی نہ ملتا اور آپ خوش رہنا شروع ہو گئیں۔

ایک روز آپ ایک اسائنمنٹ بنانے میں مشغول تھیں، کہ فون تھر تھرانے لگا، آپ نے دیکھا تو غیر شناسا لینڈ لائن نمبر تھا فون اٹھایا، "السلام علیکم" دوسری جانب سے آواز آئی، "یہ سعدی صاحب کا گھر ہے؟" آپ گھبرا کر گویا ہوئیں، "جی ہاں! خیریت؟" "آپ کو اطلاع دینی تھی کہ انھیں فالج کا اٹیک ہوا ہے آپ فوری اسپتال آجائیں" دوسری طرف کی آواز سن کر آپ ایک دم مغموم ہو گئیں۔
کتنے ہی دن اسپتال میں اور پھر کتنے ہی ماہ روز و شب صالحہ بیگم سعدی صاحب کی تیمار داری میں مصروف رہیں یہاں تک کہ وہ سہارے سے چلنے کے قابل ہو گئے۔ وہ سوچتے کہ صالحہ بیگم سے کوئی بات کریں، مگر کریں تو کیسے، تعریف ہی کر دیں، مگر وہ تو کبھی کی ہی نہیں تھی۔ اگر کچھ بہت کثرت کے ساتھ ان کو دیا تھا تو وہ "تلخیوں کی کرچیاں" تھیں جو انہوں نے سنبھال کر رکھ لی تھیں، شوہر ہیں اس لیے بہت خیال رکھتیں مگر ان سے بات کرنے میں حد درجہ گریز کرتیں۔ "آپ کچھ کھا لیں، آپ کی دوا کا وقت ہو گیا ہے، بس پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا، مجھے پتا ہے درد تو ہو رہا ہوگا، میں ابھی آتی ہوں" یہی چند جملے سعدی صاحب ان سے روز جلدی جلدی میں اور کھڑے کھڑے سنتے۔ وہ اب چاہتے تھے کہ صالحہ بیگم ان کے پاس کچھ وقت بیٹھ ہی جائیں مگر اب شاید وہ بیٹھنا نہیں چاہتی تھیں، صرف تیمار داری، رسمی سی خاطر داری اور کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔

ان کی کہانی جیسی بہت سی کہانیاں ہوتی ہیں، مگر یہ کہانیاں کیوں بنتی ہیں؟ کیوں کہ شادی کے بعد اپنے ہمسفر کو اچھا وقت دینا بہت ضروری ہے، ان کی غلطیوں سے در گزر، کبھی کبھی ان کی تعریف، سب کے سامنے ان کی عزت کا مان رکھنا، ان کے مسائل سننا، سمجھنا اور ان کے حل کی کوشش میں ان کا ساتھ دینا، یہ سب باتیں رشتوں کو مضبوط بناتی ہیں۔ اس کے برعکس، اگر دو لوگ ایک کمرے میں اجنبیوں کی طرح رہیں، ایک دوسرے کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں، بس روایت کے مطابق ایک دوسرے سے وہ فائدہ حاصل کر لیں کہ جن سے معاشرہ ان کو شادی شدہ خاندان کی حیثیت سے دیکھے تو یہ ایسی ہی کہانیوں کو جنم دیتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے زوجین کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے، "وہ تمہارے لیے پردہ ہیں اور تم ان کے لیے پردہ ہو،" (سورۃ البقرہ آیت: 187) یعنی ایک دوسرے کی خرابیوں کو چھپاتے ہوئے ان کی زینت بن جائے اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ وَاَنَا خَيْرُكُمْ لِاَهْلِي
"تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے معاملے میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے معاملے میں تم سب سے بہتر ہوں"۔
ترمذی ، 5 / 475 ، حدیث : 3921
آپ نے ایک اور جگہ فرمایا، "تم خود کھاؤ تو بیوی کو بھی کھلائو، جب خود پہنو تو اسے بھی پہنائو، اس کے چہرے پر مت مارو، اسے بُرے الفاظ نہ کہو اور اس سے(وقتی)قطع تعلق کرنا ہو تو گھر میں کرو۔"
ابو داود ، 2 / 356 ، حدیث : 2142
الغرض، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک متوازن زندگی اختیار کرنے کی کوشش کیجیے، حسن اخلاق کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، ورنہ جب آپ کسی سے بات کرنا چاہیں گے اور پانی کا گھونٹ پی کر سکون کرنا چاہیں گے تو پانی کا گلاس جھڑا ہوا پائیں گے اور اس کی کرچیاں آپ کو زخمی کر دیں گی۔
اللہ ہم سب کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بھلائی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

Dr. Saba Ghizali
About the Author: Dr. Saba Ghizali Read More Articles by Dr. Saba Ghizali: 3 Articles with 3143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.