چین میں مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کا عمر رسیدہ افراد کی
دیکھ بھال کی خدمات میں تیزی سے انضمام ہو رہا ہے، جس سے معمر ہوتی آبادی
کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جدید حل سامنے آ رہے ہیں۔تازہ ترین اعداد و
شمار کے مطابق، 2024 کے آخر تک چین کی 60 سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی
310 ملین تک پہنچ گئی ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 22 فیصد ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ انٹرنیشنل الیکٹروٹیکنیکل کمیشن نے حال ہی میں عمر
رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے لیے روبوٹس کا ایک عالمی معیار جاری کیا ہے۔
چین کی قیادت میں تیار کیا گیا یہ معیار بزرگ دوست روبوٹس کے لیے مصنوعات
کے ڈیزائن، مینوفیکچرنگ، ٹیسٹنگ اور سرٹیفیکیشن کے تکنیکی معیارات طے کرتا
ہے۔عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے لیے روبوٹس، جو کبھی ایک دور کا تصور
تھے، تیزی سے چین کی معمر ہوتی آبادی کے لیے حقیقت بن رہے ہیں۔
چینی ماہرین کے نزدیک عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے لیے روبوٹس ایک شان
دار دریافت شدہ مارکیٹ ہے ۔آج ،سینئر کیئر میں فوری مسائل، جیسے کہ نقل و
حرکت میں مدد، گرنے سے بچاؤ، اور بحالی کی مدد، کے ساتھ روبوٹکس کی بہت سی
چینی کمپنیاں مضبوط مانگ کی وجہ سے اس شعبے میں فعال طور پر سرمایہ کاری کر
رہی ہیں۔
اگرچہ عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے لیے روبوٹس ابھی صنعتی روبوٹس کے
مقابلے میں ابتدائی مراحل میں ہیں، لیکن کچھ صارفین پہلے ہی ان کی پیش کردہ
سہولت کا تجربہ کر چکے ہیں۔چین کے نرسنگ ہومز میں، روبوٹس اب روزمرہ زندگی
کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں، جو بزرگوں کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہیں، موکسا
تھراپی پیش کرتے ہیں، اور نقل و حرکت میں بہتر مدد فراہم کرتے ہیں۔ نرسنگ
ہوم حکام کے مطابق اس وقت عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال میں ٹیکنالوجی کے
استعمال پر بہت زور دیا جا رہا ہے۔ اے آئی روبوٹس، بحالی کے روبوٹس، اور
روبوٹک پالتو جانوروں کو شامل کرتے ہوئے، بزرگوں کے معیار زندگی کو بہتر
بنانے کے ساتھ ساتھ صنعت کی اختراع کے لیے ایک ٹیسٹنگ گراؤنڈ کے قیام کی
کوششیں جاری ہیں۔
یہ امر دلچسپ ہے کہ رواں سال کے اسپرنگ فیسٹیول کے دوران،چینی شہر شینزین
کی ایک روبوٹکس کمپنی دنیا کی توجہ کا نکتہ بنی جب اس کے ایکسوسکیلیٹن
روبوٹس نے عمر رسیدہ صارفین کو چین کے سب سے مشہور پہاڑوں میں سے ایک، تائی
شان پہاڑ پر چڑھنے میں مدد کی۔اس تجربے سے بزرگوں سے وابستہ اہم ضروریات کا
بھی پتہ چلا اور یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی کہ چین کی سلور اکانومی
وسیع ہے، لیکن مارکیٹ میں معیاری عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کی مصنوعات
کی کمی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت چین بھر میں، روبوٹک سلوشنز عمر رسیدہ افراد کی دیکھ
بھال کو تبدیل کر رہے ہیں۔ملک میں فالج کے شکار افراد روبوٹ اینڈ آٹومیشن
کمپنیوں کے تیار کردہ ایکسوسکیلیٹن بحالی کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے
دوبارہ چلنے کی صلاحیت حاصل کر رہے ہیں۔ پہلے ایسے افراد بمشکل اپنا پیر
اٹھا سکتے تھے، لیکن اب وہ سیڑھیاں بھی چڑھ سکتے ہیں۔اسی دوران،ایک کیئر
ہوم نے "یانگ یانگ" نامی ایک ساتھی روبوٹ متعارف کرایا ہے، جو ہر صبح
رہائشیوں کو جگاتا ہے، موسم کی تازہ ترین معلومات فراہم کرتا ہے، اور انہیں
ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں کی یاد دہانی کراتا ہے۔
ملک میں روبوٹکس شعبے کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جا رہی
ہے کہ"یانگ یانگ" جیسے عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے مزید روبوٹس مارکیٹ
میں آئیں گے۔ چینی روبوٹ انوویشن مراکز ہلکے وزن کے انسان نما روبوٹس بھی
لانچ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں، جو خاص طور پر خاندان اور صحت کی دیکھ بھال
کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ایسے روبوٹس بزرگوں کو پہچان سکیں گے، ان کے لیے
دوائیں لے کر آئیں گے، ان سے بات چیت کریں گے، حتیٰ کہ انہیں نہلانے میں
بھی مدد کریں گے۔ چینی ماہرین کے مطابق ایسے روبوٹس جہاں عمر رسیدہ افراد
کی دیکھ بھال کی بہتر خدمات فراہم کر سکتے ہیں وہاں بزرگوں کے جذباتی
تقاضوں کی تکمیل میں بھی مددگار ہیں۔
صنعت کے ماہرین کا خیال ہے کہ عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے روبوٹس کے
شعبے کی تیز رفتار ترقی پالیسی حمایت اور اے آئی ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہو
رہی ہے۔ملک میں عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کی خدمات میں اصلاحات کے نئے
رہنما خطوط بھی ہیومینوئڈ روبوٹس، برین کمپیوٹر انٹرفیس، اور اے آئی
ٹیکنالوجیز کو بہتر بنانے کے لیے آگے بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ان تمام
کوششوں کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ روبوٹس اب صرف احکامات پر عمل کرنے والی مشین
نہیں ہیں، وہ اے آئی سے چلنے والے خاندانی ارکان میں تبدیل ہو رہے ہیں
۔مستقبل کے روبوٹس جذباتی اتار چڑھاو کا پتہ لگانے، صحت کے خطرات کی
پیشگوئی کرنے، اور گھر میں اے آئی ساتھی کی طرح فعال دیکھ بھال فراہم کرنے
کے قابل ہوں گے۔
یہ توقع بھی ہے کہ عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے روبوٹس گھریلو دیکھ
بھال کے چیلنجوں کو کم کریں گے اور سلور اکانومی کی صلاحیت کو کھولیں گے
،جس سے بزرگوں کی بہتر دیکھ بھال سمیت بزرگوں کی معیشت سے جڑی نئی جہتیں
بھی سامنے آ سکیں گی۔
|