دو سال قبل چینی صدر شی جن پھنگ نے گلوبل سولائزیشن انیشی
ایٹو (جی سی آئی) متعارف کرایا تھا جس میں ثقافتی تنوع کے احترام، مشترکہ
انسانی اقدار کے فروغ، تہذیبوں کے تحفظ اور جدت طرازی اور مضبوط بین
الاقوامی عوامی تبادلوں پر زور دیا گیا ہے۔آج کی دنیا میں، غیر یقینی
صورتحال، بدامنی اور تقسیم کے تناظر میں یہ اقدام پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت
اختیار کر چکا ہے.
بالخصوص گلوبلائزیشن کے خلاف بڑھتے ہوئے رجحانات میں گلوبل سولائزیشن انیشی
ایٹو کی بڑھتی ہوئی اہمیت مسلمہ ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ تنوع کے حوالے
سے چین کا جامع نقطہ نظر دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے کیونکہ چین
باہمی احترام اور ثقافتی تبادلے پر زور دیتے ہوئے تمام تہذیبوں کے احترام
کو اہمیت دینے کی وکالت کرتا ہے۔
مارچ 2023 میں جب شی جن پھنگ نے سی پی سی اور عالمی سیاسی جماعتوں کے
مکالمے میں گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو جی کی تجویز پیش کی تو انہوں نے ایک
چینی کہاوت کا حوالہ دیا کہ "ایک پھول بہار نہیں ہے، بلکہ ایک سو پھولوں کا
کھلنا باغ میں بہار ہے" ۔ اس سے اُن کی مراد ہے کہ ثقافتی تنوع سے بھرپور
کرہ ارض اور ہم آہنگ دنیا کی تعمیر میں متعدد تہذیبوں کو اپنانے کی ضرورت
ہے۔
شی جن پھنگ کا نکتہ نظر بالکل واضح ہے کہ ممالک کو تہذیبوں کے درمیان
مساوات، باہمی سیکھنے، مکالمے اور شمولیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی
ضرورت ہے، اور ثقافتی تبادلوں کو علیحدگی سے بالاتر رکھنے، باہمی سیکھنے کو
تنازعات سے بالاتر رکھنے اور بقائے باہمی کو برتری کے احساسات سے بالاتر
رکھنے کی ضرورت ہے۔
تہذیبی مکالمے کے لئے چین کے موقف اور حمایت کو بعد میں عالمی سطح پر بھی
تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے چین کی طرف سے تجویز کردہ ایک قرارداد
منظور کی ، جس میں 10 جون کو تہذیبوں کے مابین مکالمے کا بین الاقوامی دن
قرار دیا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ایک اہم موڑ پر بین الثقافتی مکالمے پر
عالمی توجہ مبذول کرانا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اگر دنیا بھر میں نظر ڈالیں تو متعدد اختلافات ،
تنازعات،مسائل یا یہاں تک کہ جنگیں نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ عدم رواداری،
انتہا پسندی اور پاپولزم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان سب کی جڑیں ثقافتوں
اور مذاہب کے درمیان اختلافات یا تفہیم کی کمی میں مل سکتی ہیں۔مارچ 2023
میں شائع ہونے والے 40 ممالک اور خطوں کے 15،574 افراد پر کیے گئے ایک سروے
میں پایا گیا کہ 80.3 فیصد افراد متعدد تہذیبوں کو عالمی ترقی کے لئے فائدہ
مند سمجھتے ہیں، 85 فیصد رواداری اور تعاون کے ذریعے مشترکہ مستقبل کی
تعمیر پر یقین رکھتے ہیں، جبکہ 89.6 فیصد زیادہ سے زیادہ مکالمے اور کھلے
پن پر یقین رکھتے ہیں، جو ترقی پذیر ممالک میں بڑھ کر 93.7 فیصد ہو گیا
ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے افراد ایک دوسرے کی ثقافتوں
کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں اور ایک روادار دنیا کی تعمیر چاہتے ہیں۔
تاہم ،اس مقصد کے حصول کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال الفاظ
سے زیادہ زور سے بولتے ہیں۔چین کے کردار کو دیکھا جائے تو وہ محض اس مقصد
کا حامی یا وکیل ہی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات سے ایک سچا پیشہ ور بھی
ہے۔نومبر 2023 میں ، بیجنگ نے کلاسیکس کی پہلی عالمی کانفرنس کی میزبانی کی
، جہاں 400 سے زیادہ ماہرین نے کلاسیکی تہذیبوں پر سیر حاصل تبادلہ خیال
کیا۔
یہ کانفرنس مختلف اقوام کی حوصلہ افزائی کا ایک پلیٹ فارم تھا کہ وہ قدیم
روایات سے دانش حاصل کریں اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیں۔ اس کے بعد
سے چین نے عالمی تہذیبوں پر نیشان فورم اور بین الاقوامی چینی زبان کانفرنس
جیسے بین الاقوامی فورمز کا انعقاد کیا ہے ، جو مشترکہ اقدار کو تلاش کرنے
کے لئے اسکالرز ، پالیسی سازوں اور ثقافتی ماہرین کو اکٹھا کرتے ہیں۔
ثقافتی تحفظ اس اقدام کے لئے چین کے عزم کا ایک اہم پہلو ہے۔چین کی کوششوں
کے ثمرات یوں بھی برآمد ہوئے ہیں کہ اُس کے بیجنگ سینٹرل محور کو 2024 میں
یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں باضابطہ طور پر شامل کیا گیا جبکہ اسی
سال ، چینی اسپرنگ فیسٹیول کو یونیسکو کے انسانیت کے غیرمادی ثقافتی ورثے
کی نمائندہ فہرست میں شامل کیا گیا۔ یہ سنگ میل عالمی سطح پر اپنے شاندار
ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ کے لئے چین کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں ،چین نے افرادی تبادلے کو مضبوط بنانے کی بھی کوششیں کی ہیں۔
حالیہ برسوں میں ، چین نے ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے کے لئے متعدد ممالک
کے ساتھ "سیاحت کے سال" کی مشترکہ میزبانی کی ہے۔ 2024 کے آخر تک چین اپنی
ویزا فری انٹری پالیسی کو فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت 29 ممالک تک بڑھا چکا
ہے، جس سے زیادہ سے زیادہ عالمی رابطوں اور ثقافتی تفہیم و ہم آہنگی میں
مدد ملی رہی ۔
|