مسلمان سکالرز پر برٹرینڈ رسل کے الزامات کا جائزہ

برٹرینڈ رسل جیسے فلسفی کا نام سنتے ہی ذہن میں منطق، تحلیل اور عقلیت کی ایک لازوال روایت ابھرتی ہے۔ مگر خود رسل کی بعض تحریریں تاریخی حقائق سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہی ہیں. برٹرینڈ رسل کا یہ دعویٰ کہ مسلمان سکالرز نے محض دوسروں کے کام کو ترجمہ کرکے اپنی زبان میں پیش کیا اور فلسفے یا سائنس کے میدان میں کوئی اصل تخلیقی کام انجام نہیں دیا، نہ صرف تاریخی حقائق سے بیگانہ ہے بلکہ ایک ایسی علمی روایت کو مجروح کرتا ہے جس نے انسانی تہذیب کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔ رسل جیسے عظیم فلسفی کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب "A History of Western Philosophy" میں مشرق کے ان دانشوروں کے کام کو یکسر نظرانداز کر دیا جن کی کاوشوں کے بغیر یورپ کی علمی تاریخ کا کوئی صفحہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کہ رسل کا یہ موقف کتنا سطحی ہے، ہمیں اس دور کی علمی تاریخ میں گہرائی سے جھانکنا ہوگا جب مسلم تہذیب اپنے عروج پر تھی اور یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس وقت بغداد کے بیت الحکمہ سے لے کر قرطبہ کی لائبریریوں تک علم کے چراغ روشن تھے، جن کی روشنی نے نہ صرف مشرق بلکہ مغرب کو بھی منور کیا۔ مسلم مفکرین نے یونانی فلسفے کو محض نقل نہیں کیا، بلکہ اس پر تنقید کی، اسے نئے سوالات سے ہم آہنگ کیا، اور ایسے نظریات تشکیل دیے جو بعد میں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد بنے۔ مثال کے طور پر ابن رشد نے ارسطو کی تفسیر لکھتے ہوئے عقل اور وحی کے درمیان ہم آہنگی کا نظریہ پیش کیا، جس نے یورپ میں عقل پرستی کی تحریک کو جنم دیا۔ اسی طرح ابن سینا نے وجود اور ماہیت کے درمیان فرق جیسے تصورات متعارف کروائے، جو مغربی فلسفے کے لیے نئے دروازے کھولنے کا سبب بنے۔ یہ تمام کام نہ صرف تخلیقی تھے بلکہ انہوں نے فلسفے کے دائرے کو وسیع کیا۔

رسل کا یہ کہنا کہ مسلمانوں نے فلسفے میں کوئی اصل کام نہیں کیا، ایک ایسا بیانیہ ہے جو یورپ مرکزیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس بیانیے کے تحت غیر یورپی تہذیبوں کے علمی معیار کو یا تو نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا پھر انہیں ثانوی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم فلسفیوں نے نہ صرف یونانی فلسفے کو نئی زندگی بخشی بلکہ اسے ایسے مسائل سے جوڑا جو ان کے اپنے سماجی اور مذہبی تناظر میں اہم تھے۔ الفارابی نے "مدینہ فاضلہ" کا جو تصور پیش کیا، وہ افلاطون کے "جمہوریت" سے بالکل مختلف تھا۔ انہوں نے ایک ایسے معاشرے کا خاکہ پیش کیا جہاں فلسفہ اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ہم آہنگ تھے۔ یہ تصور صرف نظریاتی نہیں تھا بلکہ اس نے بعد میں آنے والی اسلامی ریاستوں کی سیاسی فکر کو بھی شکل دی۔ اسی طرح غزالی نے فلسفے پر تنقید کرتے ہوئے ایمان اور منطق کے درمیان توازن کی بات کی، جو کہ ایک بالکل نیا تناظر تھا۔ کیا یہ تمام کام محض نقل یا ترجمہ تھے؟ اگر ایسا ہوتا تو کیا یورپ کے مفکرین اِن مسلم نظریات کو اپنے کام کی بنیاد بناتے؟ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ تھامس ایکویناس جیسے عیسائی فلسفی ابن رشد کے کام سے براہ راست متاثر تھے، اور انہوں نے اپنے theological نظام کو تشکیل دیتے وقت مسلم مفکرین کے استدلال کو اپنایا۔

سائنس کے میدان میں مسلم سکالرز کی خدمات کو نظرانداز کرنا تو اور بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔ رسل کا یہ کہنا کہ مسلمانوں نے سائنس میں کوئی اصل کام نہیں کیا، اس بات کی نفی کرتا ہے کہ جدید سائنس کی بنیادوں میں مسلم سائنسدانوں کے ہاتھوں کی اینٹیں موجود ہیں۔ الخوارزمی، جسے "الجبرا کا باپ" کہا جاتا ہے، نے ریاضی میں ایک نئی زبان متعارف کروائی جس کے بغیر آج کی سائنس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ انہوں نے ہندسوں کو عربی میں متعارف کروایا، جو بعد میں "عربی اعداد" کے نام سے یورپ پہنچے اور جدید ریاضی کی بنیاد بنے۔ الخوارزمی کی کتاب "المختصر فی حساب الجبر والمقابلۃ" کو لاطینی میں ترجمہ کیا گیا اور یورپ کی جامعات میں صدیوں تک پڑھایا گیا۔ کیا یہ بھی محض ترجمہ تھا؟ یا پھر یہ ایک ایسی تخلیقی کاوش تھی جس نے ریاضی کو ایک نئی سمت دی؟ اسی طرح ابن الہیثم، جسے جدید بصریات (Optics) کا بانی مانا جاتا ہے، نے روشنی کے بارے میں ارسطو کے نظریات کو غلط ثابت کیا اور تجرباتی طریقہ کار اپناتے ہوئے ثابت کیا کہ روشنی آنکھ سے نکل کر چیزوں تک نہیں جاتی، بلکہ چیزوں سے منعکس ہو کر آنکھ میں داخل ہوتی ہے۔ یہ وہ انقلابی دریافت تھی جس نے کیمرے اور دوربین جیسی ایجادات کو ممکن بنایا۔ ابن الہیثم کی کتاب "کتاب المناظر" کو لاطینی میں ترجمہ کیا گیا اور راجر بیکن جیسے یورپی سائنسدان نے اسے اپنے کام کی بنیاد بنایا۔ کیا یہ تمام کامیابیاں بھی "چربہ سازی" تھیں؟

طب کے میدان میں مسلم سکالرز کی خدمات کا تو ایک ایسا سیلاب ہے جسے نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔ ابن سینا کی کتاب "القانون فی الطب" کو یورپ میں پانچ صدیوں تک میڈیکل کی تعلیم کا بنیادی نصاب سمجھا جاتا رہا۔ اس کتاب میں بیماریوں کی تشخیص، علاج، اور ادویات کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں جو آج بھی حیرت انگیز حد تک درست ہیں۔ ابن سینا نے نفسیاتی امراض اور ان کے جسمانی اثرات پر بھی کام کیا، جو جدید طب کے لیے ایک سنگ میل تھا۔ اسی طرح الرازی، جو کیمیاء اور طب دونوں کے میدان میں مہارت رکھتے تھے، نے چیچک اور خسرہ میں فرق واضح کیا اور تجرباتی طریقہ کار کو طب میں متعارف کروایا۔ انہوں نے مریضوں کے علاج کے لیے تجربات کی بنیاد پر ادویات تیار کیں، جو آج کے کلینکل ٹرائلز کا پیش خیمہ تھے۔ کیا یہ تمام کوششیں بھی کسی "دوسرے کے کام" کی نقول تھیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر یورپ کے عظیم سائنسدان کیوں مسلم کتب کے تراجم کو اپنی تحقیق کی بنیاد بناتے تھے؟

تاریخ اور عمرانیات کے میدان میں ابن خلدون کی خدمات کو نظرانداز کرنا تو سراسر ناانصافی ہے۔ ابن خلدون نے "مقدمۃ ابن خلدون" میں معاشرتی تبدیلیوں کے پیچھے کارفرما عوامل کا تجزیہ کیا، جو آج کی عمرانیات (Sociology) کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معاشروں کا عروج و زوال محض اتفاق نہیں بلکہ معاشی، ماحولیاتی، اور ثقافتی عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان کا تصور "عصبیت" (سماجی یکجہتی) آج بھی سیاسی علوم میں اہمیت رکھتا ہے۔ ابن خلدون نے تاریخ کو محرد واقعات کا مجموعہ نہیں سمجھا، بلکہ اسے ایک سائنسی انداز میں پرکھنے کی کوشش کی۔ کیا یہ بھی کسی یونانی مفکر کی نقل تھی؟ یا پھر یہ ایک بالکل نیا نظریاتی ڈھانچہ تھا جس نے تاریخ نگاری کا انداز ہی بدل دیا؟

تراجم کے حوالے سے رسل کا اعتراض یہ ہے کہ مسلمانوں نے یونانی علم کو محض اپنی زبان میں منتقل کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تراجم کا یہ سلسلہ علم کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے نئی بلندیوں تک لے جانے کا ذریعہ تھا۔ بیت الحکمۃ جیسے اداروں میں ترجمہ کرنے والے سکالرز محض زبان کے مترجم نہیں تھے، بلکہ وہ خود بھی گہرے مفکر تھے جنہوں نے یونانی متنوں پر تنقید کی، ان کی تشریح کی، اور نئے سوالات اٹھائے۔ مثال کے طور پر جابر بن حیان، جنہیں کیمیا کا بانی مانا جاتا ہے، نے نہ صرف یونانی کیمیا کو آگے بڑھایا بلکہ تجرباتی طریقہ کار متعارف کروایا، جو جدید سائنسی طریقہ کار کی اساس بنا۔ انہوں نے کیمیائی عملوں کو منظم انداز میں بیان کیا اور لیبارٹری میں استعمال ہونے والے آلات کی تفصیلات دیں۔ کیا یہ بھی ترجمے کا کریڈٹ لے لیا جائے گا؟

یورپ پر مسلم علم کے اثرات کو نظرانداز کرنا بھی رسل کے تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ یورپ جب تاریکی کے دور سے نکل رہا تھا، تو اُس نے مسلم دنیا کے علمی خزانوں سے استفادہ کیا۔ ابن رشد کے فلسفے نے یورپ میں "آور ازم" کو جنم دیا، جو چرچ کے روایتی عقائد کے خلاف عقل کی بالادستی کی تحریک تھی۔ ابن سینا اور الرازی کی طبی کتب کو یورپ کی جامعات میں نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ الخوارزمی کی ریاضی نے یورپی ریاضی دانوں کو متاثر کیا، حتیٰ کہ "الگورتھم" کا لفظ خود الخوارزمی کے نام سے ماخوذ ہے۔ کیا یورپ کی نشاۃ ثانیہ اِن مسلم تعلیمات کے بغیر ممکن تھی؟ اگر مسلم سکالرز محض نقول نگار ہوتے تو یورپ کے مفکرین اِن سے استفادہ کیوں کرتے؟

رسل کا یہ موقف دراصل ایک وسیع تر تاریخی روایت کا حصہ ہے جس میں مشرقی تہذیبوں کے علمی贡献 کو کم تر یا غیر اہم قرار دے کر یورپ کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ناانصافی پر مبنی ہے بلکہ انسانی علم کی عالمگیریت کے تصور کے بھی خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم کبھی بھی کسی ایک خطے یا تہذیب کی ملکیت نہیں رہا۔ مسلم سکالرز نے یونانی، ہندی، اور فارسی علم کو اپنایا، اس پر تنقید کی، اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ پھر یہی علم یورپ پہنچا، جہاں اسے مزید نکھارا گیا۔ یہ ایک مسلسل اور باہمی عمل ہے، جس میں ہر تہذیب نے اپنا حصہ ڈالا۔ رسل کا یہ کہنا کہ مسلمانوں نے صرف تراجم کیے، اِس باہمی عمل کو یکطرفہ طور پر پیش کرنا ہے، جو تاریخی طور پر غلط ہے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ تاریخِ علم کو کسی ایک تہذیب یا مفکر کے تناظر میں پرکھنا ہمیشہ نقصان دہ رہا ہے۔ مسلم سکالرز کی خدمات کو تسلیم کرنا نہ صرف انصاف کا تقاضا ہے بلکہ انسانی علم کی جامعیت کو سمجھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ جب ہم ابن الہیثم کے تجرباتی طریقہ کار، ابن خلدون کے عمرانی نظریات، یا ابن سینا کے طبی اصولوں کو پڑھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ محض "تراجم" نہیں، بلکہ علم کی وہ شمعیں ہیں جو مسلمانوں نے روشن کیں اور پھر ساری دنیا کو ان کی روشنی سے مستفید ہونے دیا۔ برٹرینڈ رسل کا دعویٰ اِس روشنی کو ماند کرنے کی ناکام کوشش ہے، کیونکہ تاریخ کے اوراق پر مسلم سکالرز کے کارنامے ایسے گہرے نقش چھوڑ گئے ہیں جنہیں مٹایا نہیں جا سکتا۔
 

Faisal  Raza
About the Author: Faisal Raza Read More Articles by Faisal Raza: 11 Articles with 2038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.