مصنوعی ذہانت سے آراستہ جدید تعلیمی نظام

روایتی کلاس روم کی تصویر اب ماضی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ آج کے اسکولوں میں سفید تختے کی جگہ بڑی اسکرینز نے لے لی ہے، طلباء پنسل کے بجائے ٹیبلٹس پر کلک کرتے ہیں، اور مصنوعی ذہانت ہر قدم پر معاون بن گئی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف تعلیمی طریقوں کو تبدیل کر رہی ہے بلکہ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان تعلیمی خلیج کو پاٹنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ آج ذہین کلاس روم ہر طالب علم کی انفرادی ضرورت پوری کرتا نظام بن رہا ہے۔مصنوعی ذہانت نے اساتذہ کے سال ہا سال کے تدریسی تجربے کو یکسر بدل دیا ہے۔ اب اساتذہ طلباء کو ٹیبلٹ کے ذریعے مشقیں تفویض کرتے ہیں، جن کے جوابات فوری طور پر اسکرین پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔اے آئی اور بگ ڈیٹا کے تجزیے کی بدولت ہر طالب علم کی کمزوریوں کو شناخت کرنا ممکن ہو گیا ہے، جس کے بعد ان کی ضروریات کے مطابق تدریسی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یوں ،پہلے کے مقابلے میں یہ تدریسی نظام کہیں زیادہ موثر ہو چکا ہے ۔

اس کے علاوہ، اے آئی طلباء کے بولنے کی صلاحیت بہتر بنانے میں بھی معاون ہے۔ فلموں، خبروں، اور شاعری کے ذخیرے سے تیار کردہ مکالموں کے ذریعے طلباء مشق کرتے ہیں، جبکہ مصنوعی ذہانت ان کے تلفظ کی درستگی کو جانچ کر فوری رائے دیتی ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف اعتماد بڑھاتا ہے بلکہ دوردراز علاقوں کے طلباء کو معیاری تعلیمی وسائل تک رسائی دیتا ہے۔

چین کا تذکرہ کیا جائے تو یہاں مصنوعی ذہانت کا وسیع پیمانے پر اطلاق دیہات اور شہر کے درمیان تعلیمی خلیج کو پاٹنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ملک کے پہاڑی علاقوں میں تعلیمی وسائل تک رسائی محدود ہے، لیکن مصنوعی ذہانت نے اس چیلنج کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں درس و تدریس سے وابستہ اساتذہ کے نزدیک مصنوعی ذہانت ٹولز نے نہ صرف تدریسی مواد کو وسیع کیا ہے بلکہ اس تک ہر طالب علم کی پہنچ کو یقینی بنایا ہے۔ شہری اور دیہی اسکولوں کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لیے یہ ٹیکنالوجی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

چین میں آج کلاس روم سے باہر بھی مصنوعی ذہانت کا کھیل جاری ہے۔ بیجنگ کے پرائمری اسکولوں میں طلباء بریک کے دوران اے آئی سے منسلک کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ہاتھ ہلانے سے چلنے والے اسمارٹ سپورٹس آلات ان کی ورزش کے دورانیے اور رفتار کو ریکارڈ کرتے ہیں، جس سے صحت مند عادات کو فروغ ملتا ہے۔

اسکولوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم میں بھی اے آئی کا کردار مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ چینی اے آئی معاون "ڈیپ سیک" کی مقبولیت کے بعد متعدد یونیورسٹیوں نے اسے اپنے نظام میں شامل کیا ہے۔ یہ ٹول تحقیقی کاموں کو تیز کرنے، ڈیٹا جمع کرنے، اور ادبی مواد کو ترتیب دینے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔تعلیمی حکام کے نزدیک یونیورسٹیوں کو نئی ٹیکنالوجیز اپنانے میں پہل کرنی چاہیے تاکہ اختراع کا عمل مسلسل فروغ پا سکے۔

جہاں تک ملک میں مصنوعی ذہانت کو مزید فروغ دینے کی بات ہے تو چین اسے اپنے قومی منصوبے اور مستقبل کے خواب کے طور پر ترجیح دے رہا ہے۔ چینی حکومت رواں سال اے آئی تعلیم پر ایک وائٹ پیپر جاری کرے گی، جس کا مقصد طلباء میں ڈیجیٹل اور اے آئی مہارتوں کو فروغ دینا ہے۔ اگلے تعلیمی سال سے بیجنگ کے اسکولوں میں ہر طالب علم کو سالانہ کم از کم 8 گھنٹے کی اے آئی تربیت دی جائے گی۔ یہ قدم مستقبل کے لیے جدت پسند اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش ہے۔

چین میں ایک جانب جہاں اے آئی کو مستقل فروغ دیا جا رہا ہے وہاں دوسری جانب حکام کو چیلنجز اور احتیاطی اقدامات کا بھی ادراک ہے۔اگرچہ اے آئی تعلیم کو بہتر بنا رہی ہے، لیکن ڈیٹا کی حفاظت، رازداری، اور اخلاقیات جیسے مسائل پر تشویشات بھی موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اے آئی کے استعمال کے لیے واضح پالیسیاں، ٹیکنالوجی کی نگرانی، اور اساتذہ و طلباء کے لیے اخلاقی تربیت ناگزیر ہے۔

حقائق کے تناظر میں مصنوعی ذہانت چین کے تعلیمی نظام کو نئے سرے سے تشکیل دے رہی ہے۔ یہ نہ صرف تدریس کے طریقوں کو مؤثر بنا رہی ہے بلکہ ہر طالب علم کو انفرادی توجہ دینے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ذمہ داری کا استعمال اور اخلاقی رہنمائی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی ٹیکنالوجی خود۔ مستقبل کی تعلیم صرف ڈیجیٹل ٹولز ہی نہیں، بلکہ انسان اور مشین کے درمیان ہم آہنگی کی کہانی ہوگی۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1452 Articles with 737794 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More