چین میں زراعت کی جدید کہانی

اس وقت چین کے مختلف علاقوں میں ذہین گرین ہاؤسز قائم کیے جا رہے ہیں جہاں روبوٹس کھیتوں کی کیاریوں کے درمیان تیزی سے گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان روبوٹس کے ہائی ڈیفینیشن کیمرے فصلوں کی نشوونما کی ریئل ٹائم تصاویر کھینچتے ہیں اور کلاؤڈ پر فوری بھیج دیتے ہیں۔ملک میں "ڈیپ سیک لارج ماڈل" جیسی تکنیکی اختراعات کے انضمام سے، ان روبوٹس کو ہزاروں تصاویر کے ذریعے ٹرین کیا گیا ہے، جس سے کیڑوں کی شناخت کی درستگی 80 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کسانوں کو فیصلہ سازی اور زرعی پیداوار کی کارکردگی بڑھانے میں مدد دے رہی ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ چین میں ٹیکنالوجی کے بھرپور فروغ سے دیہی ترقی اور زراعت میں انقلاب رونما ہوا ہے۔ملک میں مصنوعی ذہانت سے لیس زراعت، حکومت کی کوششوں کا عکاس ہے، جو دیہی علاقوں میں 46 کروڑ سے زائد افراد کی زندگیوں کو بدل رہی ہے۔ 2025 کے لیے جاری کی گئی دستاویزات میں پہلی بار "زراعت میں معیاری پیداواری قوتوں" کو ترجیح دی گئی ہے۔ زراعت دوست پالیسی میں اے آئی ، بگ ڈیٹا، اور دیگر ٹیکنالوجیز کے استعمال کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔

آج ملک بھر کے اہم زرعی علاقوں میں روایتی کھیتی اور جدید ٹیکنالوجی کا دلچسپ امتزاج دیکھنے کو مل رہا ہے۔حکام کی جانب سے ڈیپ سیک ماڈل کو اپنے مقامی اے آئی پلیٹ فارم میں شامل کیا گیا ہے، جس میں فصلوں کی بہتر کاشت سے جڑی بیماریوں کے ڈیٹا بیس اور موسمیاتی ریکارڈز سمیت لاکھوں ڈیٹا پوائنٹس کو یکجا کیا گیا۔ باغات اور کھیتوں میں فائیو جی سینسرز نصب کیے گئے ہیں جو مٹی کی نمی سے لے کر ہوا کے درجہ حرارت تک ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں۔اے آئی سے جڑے لوازمات سے قبل کاشت کار فصلوں کے پھلنے پھولنے کا دورانیہ تجربے سے طے کرتے تھے۔ کھاد ڈالنے یا بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں دیر ہو جاتی تھی۔ اب اے آئی کی تجاویز انہیں فوری اور درست حل دیتی ہیں۔

چینی پالیسی ساز مارکیٹ کی رفتار اور مستقبل کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں "اے آئی پلس زراعت" کے مارکیٹ سائز کو مزید توسیع دے رہے ہیں۔ 2021 میں یہ پیمانہ 68.5 ارب یوآن (9.55 ارب ڈالر) تھا، جو اب 90 ارب یوآن تک پہنچنے کا امکان ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیٹا اکٹھا کرنے میں عدم استحکام، پرائیویسی کے خدشات، اور کسانوں تک ٹیکنالوجی کی رسائی میں کمی جیسے مسائل حل طلب ہیں۔

چینی حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ اے آئی کی مدد سے درست کاشتکاری، خودکار مشینری، اور سپلائی چین کی بہتری کو ممکن بنایا جائے۔اس ضمن میں دیہاتوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری اور اے آئی ماہرین کی تربیت سے ٹیکنالوجی کو کھیتوں تک پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

چینی حکام مسلسل کوشاں ہیں کہ اہم آلات اور ٹیکنالوجیز کی تیاری سے سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو جامع طور پر آگے بڑھایا جائے۔یہاں اس بات کا ذکر بھی لازم ہے کہ چین میں اناج کی پیداوار نے مسلسل دو دہائیوں سے زرعی مشینری اور آلات اور زرعی میکانائزیشن کی بھرپور مدد سے بمپر فصلیں حاصل کی ہیں۔ایسے میں اے آئی جیسے انیشی ایٹوز ملک میں زرعی مشینری اور آلات کی سائنسی اور تکنیکی اختراع کو تیز کرنے کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔

چین کے لیےیہ امر بھی خوش آئند ہے کہ حالیہ برسوں میں ملک کی زرعی مشینری اور آلات کی اختراع کی صلاحیت میں بہتری آئی ہے، اور فصلوں کی کاشت کی مجموعی میکانائزیشن کی شرح بھی نمایاں حد تک بڑھ چکی ہے ۔ تاہم، پہاڑی علاقوں میں زرعی مشینری کی کمی جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکام نے کلیدی تحقیقی امور کو فروغ دینے پر زور دیا ہے جن میں موثر اور ذہین سبز زرعی مشینری پر سائنسی اور تکنیکی تحقیق، زرعی مشینری سائنس اور کاروباری اداروں کی باہمی جدت طرازی، اور زرعی مشینری کی جدت طرازی کے پلیٹ فارم کو اپ گریڈ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

اس ضمن میں چین 2030 تک زرعی مشینری کے آلات اور زرعی میکانائزیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کو بھی نمایاں طور پر آگے بڑھانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ چین کی یہ کوششیں نہ صرف زراعت کو جدید بنا رہی ہیں بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک مثال ہیں کہ ٹیکنالوجی اور روایت کا اشتراک کس طرح خوشحالی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1465 Articles with 751221 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More