پنہاں

بازار بھرے ہوئے ہیں، ہر بازار کی رونق ان ہی سے، کچھ بچانے کا منصوبہ ہو یا بیچنے کا، یہ ہی ہیں جو ہر مسئلے کا حل فراہم کرتی ہیں! آخر یہ ہیں کون؟ یہ کیسے اتنی ضروری ہیں؟ یہ کیا کرتی ہیں؟
سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ یہ کیوں کرتی ہیں؟ اور انھیں کیا کرنا چاہیے؟ خیر جو سوال پہلے ذہن میں ابھرا تو پہلے اسی کا جواب دیے دیتے ہیں۔
یہ آپ کی اور میری دنیا کی ایک خوبصورت اور انتہائی قابل احترام مخلوق صنف نازک ہے یعنی "عورت" "بنتِ حوّا۔"
یہ کیا کرتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مجھے احتیاط تو کرنی پڑے گی مگر حق بات چھپانا بھی بذات خود ایک گناہ ہے سو سنیے کہ یہ اپنی عزت کرواتی ہیں اور کسی سے سچ میں عزت ملتی ہے اور کسی سے مچ میں!
سچ والے ان سے اپنا کام نکلواتے ہیں یا پھر ان کے نقوش اور ظاہر ہونے والی زینت کے باعث ان سے تسکین پاتے ہیں۔
اور مچ والے جو ان ہی کے جیسی کسی اور "پنہاں" ارے میرا مطلب ہے کہ "عورت" کو تاڑنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اوہو! دراصل زبان بلکہ نہیں نہیں میرے ہاتھ پھسل گئے ہیں، لیکن کیا کروں بات تو غلط بھی نہیں ہے۔ تو سنیے وہ کبھی تنقید کرتے ہیں اور کبھی ان کی ہر ہر ادا پر خیالات کا اظہار!
لیجیے یہ جواب تو پھر رہ گیا کہ یہ کیا کرتی ہیں؟ جب یہ اپنی عزت سمیٹنے میں سرگرم ہوتی ہیں تو یہ بھول جاتی ہیں کہ انھیں اپنے ہاتھ، پائوں، چہرہ کہاں تک دکھانا ہے۔
یہ اصل میں عورہ کے مسائل ہیں، جن پر ہم بات کریں گے۔ لیکن اس سے قبل کہ ہم اس کی تفصیل میں جائیں آپ یہ بھی سن لیجیے کہ ان میں سے بہت سی "پنہاں" دنیا کی بھیڑ میں بھیڑیوں کے ہاتھ آ جاتی ہیں۔ اب کیا کہیے کہ نہ کہیے، ہر روز ایک نئی خبر اور مفت کی عزت، شہرت، دولت، اور تو اور مفت کا گناہ بھی۔
چلیں آپ بیزار ہو جائیں گے پہلے کچھ سن لیتے ہیں:

؎ وہ پیاری پیاری بیبیاں آ گئیں یہاں،
یہاں سے نہ جانے وہ پھر گئیں کہاں،
جنازہ ان کی عزت کا نکلا،
اور بکھری پڑی ہیں ان کی چوڑیاں۔

اب کون سا گھر اور کیا ٹھکانہ،
زندگی بن گئی ان کی ناچ گانا،
زمانے کو کہتیں نہ ہمیں ستانا،
بیبی کیوں بڑھایا تم نے پھر یارانہ؟

اب جو بڑھایا تو پھر سہو تم،
جو نکلی ہو گھر سے تو پھر سنو تم،
نہ چادر ہے سر پر نہ کپڑے پورے،
اب آ گئی ہو تو مزہ چکھو تم۔

آسان نہیں ہے اس دلدل سے جانا،
اب نہیں چلے گا کوئی بہانہ،
جو منہ لگ گیا ہے حرام کا کھانا،
تو پنہاں پنہاں کا شور کیوں مچانا! ؎

جی ہاں! جو پنہاں یہ روش اختیار کر لیتی ہیں، وہ اتنی آسانی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتیں، ان کو زمانے کی صعوبتیں سہنی پڑتی ہیں، مصیبتیں سنبھالنی پڑتی ہیں اور پھر جب معاشرے میں پرندے کم اور درندے زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر یہ شکایت بھی کرتی پھرتی ہیں۔
تو یہ ہے جواب یعنی ان سے پھیلائی گئی فحاشی ہر بچانے اور ہر بیچنے کے کام آتی ہے اور اس کی قیمت بس، بس اور بس صرف ایک پنہا کی زینت ہے اور آپ جتنا گڑ ڈالیں اتنا میٹھا ہو گا تو جتنی زینت ڈالیں اتنی ہی بچائی اور بکائی ہو گی۔ اللہ اللہ! میری اردو پھسل گئی! معاف کیجیے، کیا کروں کہ مسئلہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔
تو سنیے کہ قرآن کریم میں اللہ سُبْحانَہٗ وَ تَعَالیٰ ارشاد فرماتے ہیں،
"اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا زیور ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے جھکے رہیں، اور اپنے زیور ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہر، یا اپنے والد، یا اپنے شوہروں کے والد، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے شوہروں کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں، یا اپنے بھتیجوں، یا اپنے بھانجوں، یا اپنی عورتوں، یا اپنے ہاتھ کے غلاموں، یا اپنے زیر نگیں مردوں، یا ان بچوں سے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے آگاہ نہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں تاکہ ان کا جو زیور ہے وہ ظاہر ہو جائے۔ اور اے مومنوں تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔" (سورۃ النور، آیت 31)
"اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔ یہ بات زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچانی جائیں اور نہ ستائی جائیں، اور اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔" (سورۃ الاحزاب، آیت 59)

آئیے ان احکامات کو کچھ سمجھتے ہیں، یعنی اللہ نے کہہ دیا کہ نکلو تو ایسے کہ تمھاری زینت ظاہر نہ ہو، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ قدم کیسے رکھو یعنی اتنی نرمی سے کہ تمھاری آہٹ کسی کو متوجہ نہ کرے۔ تو پھر آواز کیسے کرے؟ بلند آواز سے نعت پڑھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، کہیں جائیے تو دیکھتے ہیں کہ بعض مرتبہ تو اچھی بھلی باپردہ عورتیں اس قدر زور زور سے ہنس رہی ہیں، جھوم جھوم کر آپس میں گلے مل رہی ہیں، اس بات کا خیال کیے بغیر کہ ان کو کون کون دیکھ رہا ہے اور نہ بھی دیکھ رہا ہو تو بھی وہ چار دیواری میں تو نہیں!
یہاں تک کہ ایسے ادارے جہاں صرف عورتیں ہی تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں وہاں بھی یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس جگہ کے رکھوالے، یعنی مالی اور چوکیدار وغیرہ بھی مرد ہیں بے شک وہ اپنے کام ہی میں مصروف ہوں گے مگر کوئی نظر آپ پر اور کوئی سماعت آپ کی آواز پر بھی جا سکتی ہے اور چلیے یہ مان لیا کہ یہ بالکل غیر ارادی ہے مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کی وجہ آپ کی اونچی آواز اور کھلکھلاہٹ بنی۔ تو پھر کیا ہوا اس پردے کا؟ لہٰذا وہ جو بالکل پردہ نہیں کرتیں اور جو باپردہ ہیں دونوں کو ہی اپنا کردار سنوارنے اور توبہ کرنے کی شدت سے ضرورت ہے۔
ہم میں سے کوئی کامل نہیں اور یہ درج بالا دلائل ثابت کرتے ہیں کہ جسے اللہ نے چھپانے کا حکم دیا ہے، اسے ظاہر نہ کریں ورنہ معاشرے کا انجام تو یہی ہوگا، مسائل بڑھتے رہیں گے اور ہم پستی اور مزید پستی میں گرتے رہیں گے۔ گھر سے نکلنا ضروری ہے، نکلیں پر یہ سوچ کر کہ ہر حال میں حدود اللہ واقع رہیں۔
اللہ ہم سب کو حدود اللہ کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر اسے آسان کر دے۔
آمین
 

Dr Saba Ghizali
About the Author: Dr Saba Ghizali Read More Articles by Dr Saba Ghizali: 4 Articles with 3791 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.