موت سے فریاد

ہر انسان محبت کے دم سے زندہ رہتا ہے۔ محبت نہ ہو تو انسان کسی کام کا نہیں، اُس کی کوءی حیثیت نہیں بلکہ اُس کا کوءی جواز ہی نہیں۔ میرا بھی یہی حال ہے۔ محبت نے مجھے زندہ رکھا تھا، مگر اب یہی محبت مجھے موت سے بھی زیادہ تکلیف دے رہی ہے۔ میں مر نہیں سکتا، کیونکہ موت تو راحت ہے۔ اگر میں مر گیا تو میری یہ عزیت ختم ہو جاے گی۔ میں زندہ ہوں، مگر ایسے زندہ ہوں جیسے کوئی لاش اپنی ہی قبر میں دب کر سانس لے رہی ہو۔ میری سانسیں چل رہی ہیں، مگر ہر سانس میرے اندر کے مردہ دل کو مزید کچل دیتی ہے۔ اے موت! تُو کیوں نہیں آتی؟ میں تجھے پکارتا ہوں، مگر تو میری آواز سن کر بھی ان سنی کر دیتی ہے۔ کیا میں نے تیرے دروازے پر دستک دے دے کر اپنی انگلیاں توڑ لی ہوں؟ کیا میں نے تیرے نام کے ورد کر کر کے اپنی زبان خشک کر لی ہے؟ پھر بھی تو دور کیوں ہے؟ تو مجھے کیوں نہیں سنتی؟ تو میری آواز پر لبیک کیوں نہیں کہتی؟ تو بھی میرا نام کیوں نہیں پکارتی؟ تو مجھ سے محبت کیوں نہیں کرتی؟

وہ چلی گءی ہے، اور اُس کے جانے کے بعد میں اپنے ہی وجود میں ایک اجنبی بن کر رہ گیا ہوں۔ میرے ہاتھ اُس کی یاد میں ہوا کو تھامتے ہیں، مگر ہوا بھی میرے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے۔ میری آنکھیں راستوں کو تکتی رہتی ہیں، شاید وہ لوٹ آئے، شاید اُس کی خوشبو ہی آ جاے، مگر راستے خالی ہیں۔ دن گزرتے جاتے ہیں، راتیں لمبی ہوتی جاتی ہیں، عزیت بڑھتی جاتی ہے، اور میں اپنے ہی سائے سے بات کرتا ہوں۔ کبھی میں اُس کے نام کو پکارتا ہوں، تو کبھی خاموشی سے اُس کی یادیں اپنے سینے میں دبا لیتا ہوں۔ مگر یہ یادیں کب تک؟ یہ درد کب تک؟

اے موت! تُو کیوں نہیں آتی؟ کیا تو بھی اُس کی طرح مجھے دکھ دے رہی ہے؟ کیا تجھے بھی میری تکلیف دیکھ کر خوشی ہوتی ہے؟ کیا تجھے میرا تڑپنا پسند ہے؟ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی زندگی کو مرتے دیکھا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ "زندگی میں اور بھی راستے ہوتے ہیں"، مگر وہ نہیں جانتے کہ جب دل ہی ٹوٹ جائے تو راستے کس کام کے؟ میں ایک زندہ لاش ہوں، جو ہر روز اپنے آپ کو دفن کرتا ہے۔ میرا چہرہ مسکراتا ہے، مگر میری آنکھیں روتی ہیں۔ میرا جسم چلتا پھرتا ہے، مگر میری روح کہیں گم ہو چکی ہے۔ میں کام کرتا ہوں مگر میں ہر کام میں ناکام ہوں۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ واپس آ جائے۔ شاید وہ میرے درد کو سمجھ لے۔ شاید وہ میری فریاد سن لے۔ شاید اُسے میری عزیت کا احساس ہو جاے۔ مگر پھر حقیقت مجھے جھنجھوڑ دیتی ہے۔ وہ نہیں آئے گی۔ وہ کب کی چلی گئی ہے۔ اور میں یہاں اکیلے اپنے ہی دل کے ٹکڑوں کو جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اے موت! اگر تُو اُس کو واپس نہیں لا سکتی، تو کم از کم مجھے اپنے پاس بلا لے۔ مگر تُو خاموش ہے۔ تُو بھی تو ظالم ہے۔ تُو بھی تو کم ستم گر نہیں۔ تُو بھی تو کم عزیت پسند نہیں۔

ہر رات میں تیرے نام کی دعا کرتا ہوں، مگر صبح ہو جاتی ہے اور میں پھر اسی اذیت میں جلتا رہتا ہوں۔ کیا میں نے کسی کو مارا ہے؟ کیا میں نے کسی کا حق چھینا ہے؟ کیا میں نے کسی کو تکلیف پہنچاءی ہے؟ پھر یہ سزا کیوں؟ یہ درد کیوں؟ میں نے تو بس محبت کی تھی۔ میں نے تو بس ایک دل دیا تھا۔ مگر وہ دل اب میرا نہیں رہا۔ وہ کسی اور کے پاس ہے، اور میں یہاں اپنے ہی سینے میں ایک خالی جگہ لیے بیٹھا ہوں۔

اے موت! تُو آ جا۔ یا پھر اُس کو واپس لا دے۔ مگر اگر تُو میری نہیں سن رہی، تو پھر میں اس درد کو کیسے جیوں؟ میں کیسے ہر روز اپنے آپ کو ٹوٹتا ہوا دیکھوں؟ میں کیسے ہر سانس کو اذیت سمجھ کر جیوں؟ تُو نہیں آئے گی، میں جانتا ہوں۔ تو پھر میں یہ سب کیوں جھیل رہا ہوں؟ کاش میں مر جاتا، مگر موت بھی تو میری نہیں سنتی

اے بے رحم موت! تُو ہر کسی کو آ لیتی ہے، مگر مجھ سے کیوں دور بھاگتی ہے؟ کیا میری آہیں تیرے کانوں تک نہیں پہنچتیں؟ کیا میرا دل تیرے سامنے بے قیمت ہے؟ کیا میری تیرے سامنے کوءی اوقات نہیں؟ میں نے تیرے دروازے پر ہزاروں بار دستک دی ہے، مگر تُو نے کبھی میرے لیے اپنے دھڑکتے دروازے نہیں کھولے۔ کیا تیرا بھی کوئی دل ہے جو میرے درد کو نہیں سمجھتا؟ یا پھر تُو بھی اُس کی طرح مجھے عذاب میں مبتلا کرنے پر تل گئی ہے؟

اُس کے جانے کے بعد، میں ایک ایسے صحرا میں گم ہو گیا ہوں جہاں نہ کوئی راستہ ہے، نہ منزل۔ میری سانسیں چل رہی ہیں، مگر ہر سانس میرے اندر زہر گھول دیتی ہے۔ میری آنکھیں کھلی ہیں، مگر وہ صرف تاریکی دیکھتی ہیں۔ میں چلتا پھرتا ہوں، مگر جیسے میرا وجود کہیں پیچھے رہ گیا ہو۔ لوگ مجھے دیکھ کر کہتے ہیں کہ "یہ زندہ ہے"، مگر وہ نہیں جانتے کہ میں تو ایک قبر میں گھر کر سانس لے رہا ہوں۔ میری روح روز مرتی ہے، اور میرا جسم اس مردہ روح کو اٹھائے پھرتا ہے۔

ہر صبح میں اٹھتا ہوں تو لگتا ہے جیسے کوئی میرا سینہ چیر کر میرے دل کو چھین لے گیا ہو۔ ہر شام جب سورج ڈھلتا ہے، تو میں اس کے ساتھ اپنی امیدیں بھی دفن کر دیتا ہوں۔ رات ہوتی ہے تو میں اپنے تکیے پر اُس کے نام کو پکارتا ہوں، مگر جواب میں صرف خاموشی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی خواب میں وہ آ جاتی ہے، اور میں اُس کی آواز سن کر جاگ اٹھتا ہوں۔ پھر اچانک احساس ہوتا ہے کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ وہ کب کی چلی گئی ہے۔ اور میں اکیلا ہوں۔ ہمیشہ کے لیے اکیلا۔

اے موت! تُو کیوں نہیں آتی؟ کیا میرا درد تیرے لیے معمولی ہے؟ کیا میری فریاد میں وہ درد نہیں جو تیرے دل کو چھو سکے؟ میں نے زندگی سے ہار مان لی ہے۔ میں نے اس دنیا سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے۔ پھر بھی تُو مجھے کیوں زندہ رکھے ہوئے ہے؟ کیا یہ بھی کوئی سزا ہے؟ کیا میں نے کوئی ایسا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں مجھے یوں تڑپنا پڑ رہا ہے؟

میرے اردگرد لوگ ہنستے ہیں، بولتے ہیں، زندگی گزارتے ہیں۔ مگر میں ان سب سے کوسوں دور ہوں۔ میں ایک ایسی دنیا میں ہوں جہاں صرف میرا درد ہی میرا ساتھی ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ واپس آ جائے، شاید وہ میری طرف دیکھ لے، شاید وہ میرے دل کی دھڑکن سن لے۔ مگر پھر حقیقت کا طوفان آتا ہے اور مجھے بتاتا ہے کہ وہ نہیں آئے گی۔ وہ کبھی نہیں آئے گی۔ اور میں یہاں اپنے ہی دل کے ٹکڑوں کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

اے موت! اگر تُو مجھے اپنے پاس نہیں بلا سکتی، تو کم از کم اُس کو میرا پیغام پہنچا دے۔ اُسے بتا دے کہ میں اب بھی اُس کے نام کو پکارتا ہوں۔ اُسے بتا دے کہ میں اب بھی اُس کی راہ تکتا ہوں۔ مگر اگر تُو یہ بھی نہیں کرے گی، تو پھر میں کیا کروں؟ میں کہاں جاؤں؟ میں زندہ ہوں، مگر زندگی نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ میں سانس لے رہا ہوں، مگر ہوا بھی میرے گلے میں پھنس جاتی ہے۔
تُو نہیں آئے گی، میں جانتا ہوں۔ تو پھر میں اس درد کو کیوں جھیل رہا ہوں؟ میں کیوں اپنے آپ کو روز بروز مرتا ہوا دیکھ رہا ہوں؟ کاش میں مر جاتا، مگر موت بھی تو میری نہیں سنتی۔ کاش میں اس درد سے نکل پاتا، مگر یہ درد تو میرے وجود میں رچ بس گیا ہے۔ اب میں صرف ایک فریاد ہوں۔ ایک ایسی فریاد جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ ایک ایسی فریاد جو ہمیشہ گونجتی رہے گی۔
"محبت کرنے والے مرتے نہیں، وہ بس اپنے دلوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔"
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 8 Articles with 2650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.