میں ایک فلسطینی بچہ ہوں۔ میں نے بہت کچھ دیکھ لیا ہے جو
کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ میں نے بہت کچھ سنا ہے جو کسی نے نہیں سنا ہوگا۔
لیکن میں ایک چیز نہیں جانتا - میں نہیں جانتا کہ کیوں؟ بس یہی سوال ہے جس
کا جواب میں ڈھونڈ رہا ہوں۔
اگر آپ میں سے کوئی جانتا ہو تو مجھے بتائے گا؟ میں صرف ایک چھوٹا سا بچہ
ہوں۔ میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ میں نے ایسا کیا کیا ہے؟
میں نے سورج کو اپنے گھر کی کھڑکی سے نکلتے دیکھا ہے۔ وہی کھڑکی جس کے شیشے
اب کسی بم نے توڑ دیے ہیں۔ میں نے اپنی امی کے ہاتھ کی روٹی کھائی ہے، وہی
ہاتھ جو اب کسی ہسپتال کے بستر پر پٹی میں لپٹے ہیں۔ میں نے اپنے ابو کے
کندھوں پر بیٹھ کر بازار دیکھا ہے، وہی کندھے جو اب کسی ملبے تلے دبے ہوئے
ہیں۔ مینیں اپنی بہن اور دوستوں کے ساتھ اسی گلی میں کھیلا ہے، جہاں شاید
اب وہ مسخ شدہ لاش کی صورت موجود ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ میری عمر صرف چھ سال ہے، لیکن میں نے اپنی عمر سے بڑے بڑے
سوال دیکھ لیے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی،
پھر یہ لوگ مجھے کیوں تکلیف دے رہے ہیں؟ میں جانتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی
کا گھر نہیں توڑا، پھر یہ لوگ میرا گھر کیوں توڑ رہے ہیں؟ میں جانتا ہوں کہ
مینیں کسی کا حق نہیں چھینا، تو پھر یہ لوگ میرا حق کیوں چھین رہے ہیں؟
مجھے یاد ہے جب ہمارا اسکول تھا۔ وہاں استاد ہمیں کہانیاں سناتے تھے۔ اب وہ
اسکول نہیں رہا۔ اب وہاں سے صرف دھواں نکلتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم محلے کے
بچے فٹبال کھیلتے تھے۔ اب وہ گلی نہیں رہی۔ اب وہاں صرف ملبہ پڑا ہے۔ مجھے
یاد ہے وہ مسجد جہاں مجھے میرے ابا ہاتھ پکڑ کر نماز کے لیے لے جایا کرتے
تھے اب وہ مسجد بھی نہیں ہے۔ اب نمازی بھی نہیں ہیں۔ اب صرف دھواں ہے، صرف
زہریلہ دھواں۔
امی کہتی تھیں کہ دنیا میں سب اچھے لوگ ہیں۔ لیکن پھر یہ کون لوگ ہیں جو ہم
پر بم برساتے ہیں؟ ابو کہتے تھے کہ بچوں کو کوئی نہیں مارتا۔ لیکن پھر میرے
دوست احمد، سلمیٰ اور یوسف کہاں گئے؟ کیا وہ بھی اس دھماکے میں چلے گئے جس
نے ہماری عمارت کو ہلا دیا تھا؟ مسجد کے مولانہ صاحب کہتے تھے کہ ہم مسلمان
ایک دوسرے کے بھاءی ہیں۔ لیکن اب کوءی بھاءی مجھے کیوں نظر نہیں آتا؟
میں نے ٹی وی پر دیکھا ہے کہ دنیا میں اور بچے بھی ہیں۔ وہ اسکول جاتے ہیں۔
وہ کھیلتے ہیں۔ وہ ہنستے ہیں۔ اُن پر کوءی بم نہیں برستا۔ اُن پر کوءی گولی
نہیں چلاتا۔ اُن کی عزت کوءی نہیں لوٹتا۔ اُنہیں کوءی نہیں گالیاں دیتا۔
اُن کے ماں باپ کو کوءی بے دردی سے قتل نہیں کرتا۔ کیا میں ان جیسا نہیں
ہوں؟ کیا میں بھی باقی بچوں جیسا ایک بچہ نہیں ہوں؟ پھر میرا حق کیوں کوئی
نہیں پوچھتا؟ میری آواز کیوں کوئی نہیں سنتا؟ کیوں!
رات کو جب بمباری تھمی ہے تو میں اپنی امی سے پوچھتا ہوں: "کیا کل ہمارا
گھر واپس آ جائے گا؟" وہ مجھے چپکے سے اپنے ساتھ لگا لیتی ہیں۔ ان کے آنسو
میرے بالوں پر گرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ میں
جانتا ہوں کہ وہ بھی اتنی ہی بے بس ہیں جتنا میں۔
میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک دن ہماری گلی میں پھر سے بچے کھیل رہے
ہیں۔ ہمارے اسکول کی گھنٹی بج رہی ہے۔ امی گھر میں روٹی پکا رہی ہیں۔ ابو
دفتر سے واپس آ رہے ہیں۔ میری چھوٹی بہن ادھر اُدھر بھاگ رہی ہے۔ لیکن پھر
اچانک کوئی بڑی آواز آتی ہے اور میں جاگ جاتا ہوں۔
ابا... یہ کیا ہو رہا ہے؟ میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ تاریک کیوں ہو گیا؟
میں نے تو صرف کھلونے سے کھیلنا چاہا تھا۔ میں نے تو صرف امی کا ہاتھ تھام
کر چلنا سیکھا تھا۔ پھر یہ اچانک کون سی آوازیں ہیں جو میرے کانوں کو چیر
رہی ہیں؟ یہ دھماکے کیوں ہو رہے ہیں؟ ابا... میرا گھر... میرا کمرہ... وہ
کہاں چلا گیا جہاں میں سو جایا کرتا تھا؟
امی! امی کہاں ہیں آپ؟ میں نے آپ کو آخری بار دیکھا تو آپ میری طرف دوڑی جا
رہی تھیں۔ آپ کے ہاتھ میرے لیے پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اچانک وہ بڑی سی آواز
آئی... اور اب میں کسی کے بازوؤں میں ہوں جو مجھے بہت تیز دوڑا لے جا رہے
ہیں۔ امی کی آواز تو سنائی نہیں دے رہی۔ کیا آپ بھی میرے ساتھ ہیں؟ مجھے
بتاءیں نہ کیا آپ ٹھیک ہیں؟ کیا آپ میرے قریب ہیں؟ امی بتاءیں نا! امی، امی
مجھے ڈر لگ رہا ہے ایک بار آواز دے دیں۔
ابا، ابا جان... میرا سینہ کیوں جل رہا ہے؟ میرا بازو کیوں حرکت نہیں کر
رہا؟ میرا وجود مفلوج کیوں ہو رہا ہے؟ میں نے تو کچھ غلط نہیں کیا تھا۔ میں
نے تو صرف اسکول جانا سیکھا تھا۔ صرف ہنسنا سیکھا تھا۔ صرف خواب دیکھے تھے۔
استانی اماں نے کل ہی مجھے ستارہ دیا تھا۔ میں نے تو صرف اپنی گڑیا کو
سلانا چاہا تھا۔ پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟
وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے گھروں پر آگ برسا رہے ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں جو
ہمارے لوگوں کو ہم سے دور لے جا رہے ہیں؟ وہ کیوں ہمارے اسکول توڑ دیتے
ہیں؟ وہ کیوں امی کے ہاتھ سے چھلانگ لگا کر بھاگ جاتے ہیں؟ انہوں نے میرے
دادا جان کو کیوں مار ڈالا؟ انہیں ہم سے کیا چاہیے؟ ہم نے تو انہیں کچھ
نہیں کہا تھا۔ ہم تو بس اپنے گھر میں خوش تھے۔
ابا... میں ڈر رہا ہوں۔ یہ خون کیوں بہہ رہا ہے؟ یہ چیخیں کیوں سنائی دے
رہی ہیں؟ کیا یہ سب کبھی ختم ہو گا؟ کیا میں پھر کبھی اپنے کمرے میں سو
پاؤں گا؟ کیا میں پھر کبھی امی کے ہاتھ کا کھانا کھا پاؤں گا؟
مجھے تو صرف یہ یاد ہے کہ کل ہی میری چھوٹی بہن نے چلنا سیکھا تھا۔ وہ کہاں
ہے اب؟ کیا وہ بھی کسی کے بازوؤں میں ہے؟ کیا وہ بھی اس آگ سے بھاگ رہی ہے
جو ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے؟
ابا... میری آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔ میں تھک گیا ہوں۔ میں اور نہیں دوڑ
سکتا۔ میں اور نہیں چلا سکتا۔ اگر میں سو جاؤں تو کیا آپ مجھے جگا دیں گے؟
جب یہ سب ختم ہو جائے گا؟ جب ہم اپنے گھر واپس چلے جائیں گے؟
لیکن ابا... اگر میں نہ جاگ سکا... اگر میں واپس نہ آ سکا... تو براہ
کرم... امی سے کہنا میں نے انہیں بہت پیار کیا تھا۔ مینیں اُن کے سینے سے
لگنا بہت یاد کیا تھا۔ چھوٹی بہن سے کہنا میں اس کا بھائی بن کر واپس آؤں
گا۔ اگلی بار۔ کسی اور جنم میں۔ جب ہمارا گھر ویران نہ ہو گا۔ جب ہم پر بم
نہیں برسیں گے۔ جب ہم صرف بچے ہوں گے... بس بچے... جنہیں صرف کھیلنا اور
ہنسنا آتا ہو۔ ابا، اگر میں نہ جاگ سکا تو یہ کبھی نہ بھولنا کہ میں آپ کو
بہت چاہتا ہوں۔ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ میرے مسلمان بھاءیوں اور
بہنوں سے کہنا کہ اُن کی خاموشی نے مجھے اس مکام پر پہنچایا ہے۔ اُن سے
کہنا کہ اُن کی بے حِسی نے ایک اور ننھے بچے کی جان لے لی ہے۔ ابا، اگر یہ
سب ختم ہو جاے، اور میری بہن موجود ہو تو اُسے بہت سارا پڑھانا، تاکہ وہ
میری طرح یوں بے بسی میں نہ مرے۔ ابا جان، میری تکلیف بڑھ رہی ہے۔
ابا... میری آنکھیں... بہت بھاری ہو رہی ہیں...
|