میں ایک لکھاری ہوں، میرا قلم مظلوموں کی آواز بنتا ہے،
سچائی کو بے نقاب کرتا ہے اور انسانیت کے درد کو محسوس کرتا ہے۔ آج میرا دل
فلسطین کی المناک صورتحال پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ یہ سرزمین، جو انبیاء
کی جائے پیدائش اور مختلف تہذیبوں کا سنگم رہی ہے، آج جبر، ناانصافی اور
بربریت کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان بن چکی ہے۔
فلسطینی عوام، جن کی جڑیں اس زمین میں صدیوں سے پیوستہ ہیں، ایک ایسی زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں جو خوف، محرومی اور مسلسل خطرے سے عبارت ہے۔ ان کے
گھروں کو بلڈوزروں سے مسمار کیا جاتا ہے، ان کی زمینوں پر غیر قانونی
بستیاں تعمیر کی جاتی ہیں اور انہیں اپنے ہی وطن میں اجنبیوں کی طرح زندگی
گزارنی پڑتی ہے۔
میں ان معصوم بچوں کی تصویریں دیکھتا ہوں جن کی آنکھوں میں خوف اور بے
یقینی کے سائے رقص کرتے ہیں۔ وہ بچے جو گڑیاؤں اور گاڑیوں سے کھیلنے کی عمر
میں بموں کی گرج اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سننے پر مجبور ہیں۔ وہ بچے جو اپنے
والدین کے بازوؤں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں، لیکن اکثر وہ بازو بھی ظالم کے
نشانے سے محفوظ نہیں رہتے۔
میں ان ماؤں کی دلخراش کہانیاں سنتا ہوں جن کے جگر گوشے ان کی آنکھوں کے
سامنے شہید کر دیے گئے۔ وہ مائیں جو اپنے پیاروں کے کھو جانے کے غم میں
نڈھال ہیں، لیکن پھر بھی اپنے باقی ماندہ بچوں کے لیے حوصلہ جمع کرنے کی
کوشش کرتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک سوال ہے، ایک فریاد ہے کہ آخر ان کے
بچوں کا کیا قصور تھا؟
میں ان نوجوانوں کے جذبات کو سمجھتا ہوں جو اپنے مستقبل کو تاریک ہوتا دیکھ
رہے ہیں۔ ان کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں، ان کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ وہ
تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں، ایک باعزت
زندگی گزارنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی
ہیں۔ انہیں اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے ہر قدم پر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔
یہ صرف زمینی تنازعہ نہیں ہے، یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
فلسطینیوں کو نقل و حرکت کی آزادی نہیں ہے، انہیں اپنی مرضی سے علاج کرانے
کی اجازت نہیں ہے، انہیں اپنی عبادت گاہوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔ ان کی زندگی ہر لمحہ ایک امتحان بن کر رہ گئی ہے۔
بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کی خاموشی ایک
مجرمانہ غفلت ہے۔ کیا ان کی نظریں ان مظلوموں کے خون سے رنگین مناظر نہیں
دیکھتیں؟ کیا ان کے کان ان کی دردناک چیخیں نہیں سنتے؟ کیا ان کے دل ان کے
غم سے پگھلتے نہیں؟
میں ایک لکھاری کی حیثیت سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ میرے الفاظ شاید اس ظلم
کو ختم نہ کر سکیں، لیکن یہ خاموش رہنے سے کہیں بہتر ہیں۔ میری یہ تحریر ان
تمام لوگوں کے لیے ایک پکار ہے جن کے دلوں میں انسانیت زندہ ہے۔ یہ ایک یاد
دہانی ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ایک قوم کو اس کے بنیادی
حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی آواز بلند کریں، اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کریں
اور فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کریں۔ ہمیں ان بین الاقوامی
تنظیموں پر دباؤ ڈالنا چاہیے جو امن اور انصاف کے قیام کے لیے بنائی گئی
ہیں۔ ہمیں ان حکومتوں کو جھنجھوڑنا چاہیے جو اپنے مفادات کی خاطر مظلوموں
کی چیخوں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔
فلسطین کی آزادی صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے، یہ پوری انسانیت کا مسئلہ
ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر ہم اس ظلم پر خاموش رہے تو
تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
|