|
از قلم: آصف جلیل احمد۔ چونابھٹّی 9225747141
فلسطین کے معصوم بچوں کے بکھرے ہوئے اعضا، والدین کی خون آلود لاشیں، خون سے تر آنکھیں اور بموں سے لرزتے آنگن اب صرف تصاویر نہیں رہے، یہ سوالیہ نشان بن چکے ہیں، ہماری غیرت، ضمیر، اور اسلامی اتحاد پر۔ واقعی ہم زندگی کے نام پر شرمندہ لاشیں ہیں۔ غزہ جل رہا ہے، مسجد اقصیٰ کے گنبد چیخ رہے ہیں، اور اسرائیل ظلم کی انتہا کر چکا ہے، مگر امتِ مسلمہ کا حال یہ ہے کہ وہ محض مذمتی بیانات، وقتی احتجاجات اور خاموش دعاؤں تک محدود ہے۔ ایک طرف بچوں کی چیخیں آسمان پھاڑ رہی ہیں، اور دوسری طرف اسلامی دنیا کے ایوانوں میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ کیا یہی وہ امت ہے جس کے لیے فرمایا گیا تھا: "جسمِ واحد کی مانند ہو گی"؟ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر فلسطین کے خون سے ہاتھ رنگ رہی ہیں، اور مسلم ممالک اپنے مفاد کے لیے صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ہر اسلامی سربراہ کی خاموشی، فلسطینی لاشوں پر پڑا ایک اور کفن ہے۔ یہ کفن صرف جسموں پر نہیں، ہمارے ایمان، ہماری غیرت، اور ہماری بے عمل قیادت پر بھی لپٹا ہوا ہے۔ اقوامِ عالم کی بے حسی پر افسوس اور اسلامی قیادت کی بزدلی پر ماتم کیا جائے یا اپنی اپنی زندگی میں مگن عام مسلمانوں کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑا جائے؟ یقیناً دونوں ہی آج کے سب سے بڑے المیے ہیں۔ فلسطین کے شہداء ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں، چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ "ہم مر کر بھی جاگ گئے، تم جیتے جی مردہ ہو!"۔ اب وقت ہے کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، دل سے، عمل سے اور دعاؤں سے اٹھ کھڑے ہوں۔ امت کے ہر فرد کو فلسطین کے لیے رونا، تڑپنا اور اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنا انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔ اپنے بچوں کو، اپنے گھروں کو اور اپنے دلوں کو اس مسئلے سے جوڑنا ہو گا۔ یہ محض فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ امتِ محمدیہ کا اجتماعی امتحان ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ صرف دعا ہی کافی نہیں، بلکہ مصنوعات کا بائیکاٹ بھی ضروری ہوچکا ہے۔ ہمیں پوری بصیرت کے ساتھ ان مصنوعات اور کمپنیوں کا مسلسل بائیکاٹ جاری رکھنا ہوگا جو اسرائیلی مظالم میں مالی مددگار ہیں یا ظالم طاقتوں سے جُڑی ہوئی ہیں۔ ہماری خریداری ایسی نہ ہو کہ کسی معصوم کے خون کا سبب بنے۔ کم از کم یہ بائیکاٹ ہی ہماری خاموش مزاحمت ہے۔ اور یہ وہ خاموشی ہے جو گونگی نہیں بلکہ گرجتی بھی ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر ہاتھ اٹھائیں اپنے رب سے غزہ کی نصرت، مظلومین کی حفاظت، اور ظالمین کی تباہی کی دعا کریں۔اور دل میں یہ عہد کریں کہ ہم زندہ لاشیں نہیں بلکہ بیدار امت بنیں گے۔ |