الٹی گنگا بہتی ھے

یہ کالم معاشرے میں بڑھنے والے ناگوار ماحول ، آ پنوں کے لیے بڑھنے والی دلی رنجیشوں ،اسلام کو بھول جانا اور تنزایا گفتگو کرنا اپنے گھروں میں سب موجود ھوتے ہوئے دوسروں کے گھروں میں منہ مارنا تعلیم یافتہ ھوتے ھوئے جاہلیت کا مزہرہ کرنا ۔

**زندگی کی دوڑ میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کا ہوش ہی نہیں رہا، ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے ہیں۔۔۔ ہم تو ایک معصوم، فرشتہ صفت انسان تھے، پھر اب حیوانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ پہلے معاشرہ ہمیں اُٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے، اُڑنے کی تمیز سکھاتا تھا، اب اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اب معاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہو گیا ہے۔ اب لوگوں میں ایک نئی سوچ جنم لے چکی ہے، کوئی اچھی بات بتائے، سیدھی راہ دکھائے، تو کہا جاتا ہے: "آپ ہوتے کون ہیں؟ اپنے گریبان میں جھانکیں، پھر مجھ سے بات کریں۔"
ہمارے طور طریقے، ثقافت، سب کچھ یہ نئی نسل بھول چکی ہے۔ اب تو ہڈیوں کا ایک خالی ڈھانچہ رہ گیا ہے، جسے بھی آہستہ آہستہ دیمک چاٹ جائے گی۔۔۔ اور ہم لوگ بھی ہو جائیں گے خاک۔اس معاشرے کی عورت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مرد بھی انسان ہے، گدھوں کی طرح کام کرکے گھر آئے، پھر ان کی فرمائشیں پوری کرے، آخر میں ان کو صرف ایک بات سننی پڑتی ہے... "کیا کیا ہے تم نے میرے اور میرے بچوں کے لیے؟"
یہ اتنی سی بات جو ایک کم عقل عورت کو معمولی لگتی ہے، وہ ایک چٹان جیسے حوصلے والے مرد کو "نامرد" ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔
خدارا! اپنی سوچ کو بدلو۔ اگر عورت امانت ہے تو مرد محافظ ہے۔ ذرا سوچ کر، تول کر، اپنے الفاظ ادا کرو۔
گھر شروع میں سب کا جنت ہوتا ہے۔ یہ تم لوگوں کا کام ہے کہ اسے جنت ہی رہنے دو، یا جہنم بنا دو۔
دوسری عورت تب ہی تمہارے گھروں کا رخ کرتی ہے جب وہ دیکھ لیتی ہے کہ "میرے لیے کتنی جگہ ہے؟"
اس معاشرے میں طلاق جوعورتیں بغیر کسی مجبوری کے لیتی ہیں ان پر معاشرہ بھی لعنت بھیجتا ہے۔ اور بے شک اللہ کو "طلاق" جیسے لفظ بھی پسند نہیں۔
تو سوچو! تم لوگ کیا کرتے ہو؟
صحیح کہتے ہیں، اب اس معاشرے میں الٹی گنگا بہتی ہے۔
آج کل جو لباس پہنا جاتا ہے، پتا ہی نہیں چلتا کہ کچھ پہنا بھی ہے یا نہیں۔ مرد اور عورت کا لباس اسلام میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، مگر اب دونوں کے لباس میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ میں کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کو جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا، وہ ہم بھول چکے ہیں۔ اب پاکستان میں ہر وہ کام ہوتا ہے جو جائز نہیں ہے۔ لوگوں کو بس یہ یاد ہے کہ عورت مارچ ہوا تھا، اُس میں کیا بولا گیا تھا۔

سڑکوں پر بچے بھیک مانگتے ہیں، اِن کے پیچھے کوئی گینگ ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے کوئی آفیسر ہی ان کا سرغنہ ہو۔ لڑکے اور لڑکی کی کوئی ویڈیو وائرل ہو گئی، ضرور انہوں نے خود کروائی ہو گی مشہور ہونے کے لیے۔ کسی اداکارہ کی تلاش سے لے کر موت تک، یہ کوئی ویڈیو لکھی ہوئی لگتی ہے۔۔۔ خود ہی کروائی ہو گی، اُسے کوئی ڈرامہ نہیں مل رہا تھا، ہر چینل کی ہیڈلائن بننا چاہتی ہو گی۔

چوروں کا کوئی گروہ پکڑا جائے تو تفتیش سے پہلے اُن لوگوں پر وہ کیس ڈال دیے جاتے ہیں جو پولیس سے حل نہیں ہو رہے۔ ماں گھر سے بھاگ جائے یا خودکشی کر لے تو بیٹی سب کچھ برداشت کرتی ہے کیونکہ وہ بدنام لڑکی کا سرٹیفکیٹ لے کر پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اگر باپ جواری ہو، ریپسٹ ہو، چور ہو، تو اکثر بیٹے حافظ نکلتے ہیں۔ اُن میں سے ایک دو کو ہی باپ والے تمغے ملتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ دنیا کے قہراندوز تنے ہوئے منہ نہیں رکھتے۔

اگر جوان لڑکی گندم کی گولی/زہر کھا لے تو بدکردار کا طعنہ دے دیا جاتا ہے۔۔۔ اور اگر وہی لڑکی مر جائے تو ان لوگوں کی عزتوں کے جنازے نکل جاتے ہیں، سر اُٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہتے۔ میں پوچھتی ہوں کہ ہر لڑکی اور عورت بدکردار نہیں ہوتی جتنا اس معاشرے نے اُسے بنا دیا ہے۔۔۔ وہ تو تم لوگوں کے پاس اللہ کی امانت ہے، اُسے تھوڑا سا پیار، عزت اور بھروسہ دو، وہ کیوں تمہاری نام نہاد عزتوں کے جنازے نکالے گی؟ وہ تو ہر سانس تمہارے نام کر دے گی۔
بس! اب وقت ہے سوچ بدلنے کا۔۔۔ اس بےرنگ معاشرے کو رنگین بنانے کا۔
یہ ہم لوگ آج کل اسٹیٹس لگاتے ہیں: "رشتےدار سانپ ہیں"، "یہ دوغلے"، "وہ منافق"۔۔۔ کبھی خود کو بھی تو آئینے میں دیکھو، ڈر لگے گا۔۔۔ کیونکہ ہم لوگوں کو اُن کے چہرے دیکھتے دیکھتے اپنا چہرہ دیکھنا بھول گئے ہیں۔
برائے مہربانی، یہ اوور تھنکنگ چھوڑ کر آج اگر ہم لوگ اس معاشرے کو ایک نئی سوچ دے دیں تو کل یہ گلستان رنگوں سے رنگین ہو گا۔ ہر طرف خوشبو ہو گی۔ کوئی اپنی کلی کو باہر نکلنے سے نہیں روکے گا، اور نہ ہی کوئی کلی بازاروں میں آ کر کہے گی "میرا جسم میری مرضی"۔
بس اس گلشن کو پھر سے اسلام کے سانچے میں ڈال دو، تو دیکھو ہر رنگ تمہیں رنگ لگے گا۔ مثبت سوچ کو سوچو، منفی سوچ کو نکال کر باہر پھینکو۔ ہمارا اسلام بہت خوبصورت ہے، ہم سب بھٹک چکے ہیں اپنی راہوں سے۔
اللہ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔
پاکستان زندہ باد۔



 

Kaneez Fatima
About the Author: Kaneez Fatima Read More Articles by Kaneez Fatima: 3 Articles with 357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.