بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے پاس اپنی مسلح دہشت
گردی(جس کووہ آزادی کی جدوجہدکانام دیتے ہیں) کوانجام دینے کا کوئی جواز
نہیں، ماسوائے”محرومیوں“کے ایک من گھڑت اور جھوٹے بیانیے کے جو سالوں سے
گھڑ کر بلوچ عوام بالخصوص تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرکے ریاست
کے خلاف بغاوت پر اکسایا جارہا ہے۔پہلی بات یہ کہ بلوچستان کوئی مقبوضہ
علاقہ نہیں کہ جہاں پر جہاد یا آزادی کی جنگ لڑی جارہی ہو،بلوچستان پاکستان
کا ایک اہم صوبہ،اس کی تقدیراوراس کے ماتھے کا جھومر ہے۔آج پندرہ سو دہشت
گرد بھارت اور دیگر دشمن ممالک کی حمایت اور فنڈنگ سے اس پر قابض ہونے کا
خواب دیکھ رہے ہیں۔ان کو علم نہیں کہ ان کی اگلی دس نسلیں بھی اس خواب کو
حقیقت کا روپ نہیں دے سکتیں،اسی وجہ سے وہ تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو
اپنے مذموم مقاصد کے لیے اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں۔اس کا م کے لیے دہشت گرد
تنظیمیں،بی وائی سی،ماہ رنگ لانگو،سمی دین بلوچ اورصبیحہ بلوچ جیسی اپنی
پراکسیزکی وساطت سے طلعت عزیز جیسے پڑھے لکھے نوجوانوں کو نشانہ بناتی
ہیں۔ان کو بیرون ممالک میں پر آسائش زندگی کے جھوٹے خواب دکھا کر پہاڑوں پر
لیجا کر ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دئیے جاتے ہیں۔چند ماہ قبل ہتھیار
ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے والے کالعدم تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی (بی
آر پی)کے اہم کمانڈر نجیب اللہ نے پریس کا نفرنس کرتے ہوئے ان دہشت گرد
تنظیموں کی حقیقت اور اصلیت سے پردہ چاک کیا تھا۔نجیب اللہ نے بتایا تھا کہ
دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کوکس طرح استعمال کرتی ہیں،جھوٹے وعدوں اور
گمراہ کن پراپیگنڈاکے ذریعے انہیں شدت پسندی کی طرف مائل کیا جاتا
ہے،پہاڑوں پر دو قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہے ایک جسمانی اور دوسری ذہنی
ٹریننگ دی جاتی ہے جس میں مختلف قسم کی کتابیں پڑھا کر نوجوانوں کا برین
واش کیا جاتا ہے۔پہاڑوں پر موجود نوجوانوں کے پاس دو وقت کی روٹی
نہیں،اورجن، ڈاکٹر اللہ نذر،ہر بیارمری،مہران مری،جاوید مینگل جیسے
بلوچستان کے دشمن اور غداروں کے اشاروں پر یہ سب کچھ ہورہا ہے وہ سبھی
بیرون ممالک میں عیش وعشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔اور یہاں پر کبھی
بلوچستان کی پسماندگیوں کا رونا روکر تو کبھی دہشت گردوں کو ”جبری
گمشدہ“بناکر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کرکے عوام
کے دلوں میں ریاست کے خلاف نفرت کا بیج بویا جارہا ہے۔جبکہ حقیقت اس کے
بالکل برعکس ہے،بلوچستان میں سڑکوں کا جال دیکھیں،وہاں تعلیم اور صحت کے
لیے سہولیات پر نظر ڈالیں،آپ کو ان مافیاز کے بیانیے میں جھوٹ صاف نظر آئے
گا،اصل بات یہ ہے کہ ان دشمن عناصر کو بلوچستان کی ترقی وخوشحالی ہضم نہ
ہورہی ہے۔جہاں تک ”مسنگ پرسنز“کی بات ہے تو بلوچستان بھر میں کوئی ایک بھی
فردبھی”جبری گمشدہ“نہیں۔پہلی بات کہ اگر مسنگ پر سن کہانی میں کوئی حقیقت
ہے تو پھر مسنگ پرسن پشتونوں میں کیوں نہیں ہیں؟ہزارہ میں کیوں نہیں
ہیں؟۔دوسری بات اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ماہ رنگ لانگو سپریم کورٹ آف
پاکستان کی طرف سے مسنگ پرسنز کے حوالے سے بننے والے کمیشن کے ساتھ تعاون
کرنے سے انکاری کیوں ہے؟اس لیے کہ بلوچستان میں مسنگ پرسنز کی سرے سے ہی
کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ماہ رنگ لانگو،سمی دین بلوچ،صبیحہ بلوچ اور ماما قدیر
جیسے ملک دشمن ایجنٹ جن افراد کو ”لاپتہ“قرار دیتے ہیں،وہی لاپتہ
افرادمختلف دہشت گردوں حملوں میں شامل نکلتے ہیں۔ یہ ایک ڈرامہ ہے جو
بیرونی آقاؤں کی ایما ء پر ریاست کو بدنام کرنے اور ڈالروں کے حصول کے لیے
رچایا جارہا ہے۔اور اس ڈرامے کا مرکزی کردار ماہ رنگ لانگو ادا کررہی
ہے۔کالعدم تنظیموں کی بربریت پرزبانوں آبلے پڑھ جاتے ہیں اور جب سیکیورٹی
فورسز دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرتی ہیں،تو چیخوں کی آوازیں آسمان تک
سنائی دیتی ہیں۔جعفر ایکسپرپس پردہشت گرد حملہ کرکے نہتے مسافروں کو یرغمال
بنانے والی کالعدم تنظیم بی ایل اے نے 21مسافروں اور 4ایف سی کے جوانوں کو
شہید کیا۔نام نہاد بی وائی سی،ماہ رنگ لانگو،سمی دین بلوچ کے ہونٹوں پر
تالے پڑگئے مگر اس حملے میں وصل جہنم ہونے والے بی ایل اے کے
33درندوں،حیوانوں اور خارجیوں کی لاشوں کے لیے سول کوئٹہ پر دھاوا بول
دیا۔ریاست کے خلاف ہر وقت زہر اگلنے والی ماہ رنگ لانگو کے منہ سے کبھی ان
کالعد م تنظیموں کی بربریت پرمذمت کا ایک لفظ تک ادا نہ ہوسکا۔چند روز قبل
29اپریل کو تربت کے علاقے ڈنک میں سیکیورٹی فورسزنے ایک کامیاب آپریشن
کیا،جس میں کالعدم تنظیم بی ایل اے کے تین انتہائی خطرناک دہشت گرد وں،نبیل
احمد،فیروز ساربان اور محمد عمرکو جہنم رسید کیاگیا۔دہشت گردنبیل احمدولد
رسول بخش تربت،گوکدان کا رہائشی 2010سے بی ایل اے کا یونٹ
کمانڈر2022,2010اور2024 میں سیکیورٹی پوسٹوں پر ہونے والے حملوں،آئی ای ڈی
دھماکوں،اور بلوچ شہریوں کے قتل ملوث تھا، سیکیورٹی فورسز کو انتہائی مطلوب
ہونے کے ساتھ ساتھ CTDکی ریڈبک میں بھی شامل تھا،نبیل احمد کے خلاف گوادر
میں تین ایف آئی درج تھیں،اور وہ ماضی میں پانچ سال مچھ،گڈانی اور تربت کی
جیلوں میں قید بھی رہا،اطلاعات کے مطابق دہشت گرد سرگرمیوں میں مسلسل ملوث
رہنے کے باعث اس کے خاندان نے اس کو عاق کردیا تھا۔دہشت گردفیروزساربان
ولداللہ بخش تربت،آبسر کے ڈکی بازار کا رہائشی 2022سے بی ایل اے کا مقامی
ایریا کمانڈر، اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور عام شہریوں کو ”ڈیتھ
اسکواڈ“کے نام پر شہید کرنے میں ملوث تھا۔دہشت گرد محمد عمر زکاولد علی
سنگھور،تربت کا رہائشی 2021سے کالعدم تنظیم بی ایل اے کا سرگرم رکن اور ضلع
کیچ میں باردوی سرنگیں (IED)نصب کرنے میں ملوث تھا۔ان کی کاروائیاں
بلوچستان میں عدم استحکام کا سبب بنی ہوئی تھیں۔ان دہشت گرودوں کی ہلاکت کو
بجا طور پر ”خس کم،جہاں پاک“سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔یاد رہے کہ ایسے افراد
معاشروں کے لیے کسی ناسور سے کم نہیں ہوتے، جن کی ہلاکت انسانیت کی بقاء
اور معاشرتی استحکام کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔اب ان مذکورہ دہشت گردوں کی
لاشوں کے لیے جنہیں محکمہ سی ٹی ڈی اور پولیس نے دفنا دیا ہے اور باقاعدہ
طور پر ورثاء کو آگاہ بھی کیا جاچکا ہے،سٹرکوں کو بند کرنا،قانون شکنی کرنا
بھی کھلی دہشت گردی جو کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔واضح رہے کہ
حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق دہشت گردوں کی لاشیں کسی کو نہیں دی
جاسکتیں۔
|