انسانیت کا گم ہوتا سبق

جب تہذیبیں بلند عمارتوں، جدید اسلحے، اور برق رفتار ٹیکنالوجی پر فخر کرنے لگیں، اور دلوں سے رحم، ہمدردی اور بھائی چارے کا جذبہ مٹنے لگے، تو یہ علامت ہوتی ہے کہ انسان نے صرف ترقی کی ظاہری شکل اپنائی ہے، باطن خالی ہو چکا ہے۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس میں سب سے بڑی کمی انسانیت کی ہے۔ ہم نے سائنس سیکھ لی، دنیا کو تسخیر کر لیا، لیکن انسان کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے۔ یہی وہ سبق ہے جس کی ہمیں آج سب سے زیادہ ضرورت ہے انسانیت کا۔

صاحبوآج کا انسان چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے، جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے، لیکن اس سب ترقی کے باوجود معاشرے میں جو چیز تیزی سے ناپید ہو رہی ہے، وہ ہے انسانیت۔ افسوس کی بات ہے کہ علم، دولت اور طاقت کی فراوانی کے باوجود ہم انسان بننے کے بنیادی تقاضے بھلا بیٹھے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا سبق جو ہمیں پڑھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے، وہ انسانیت کا ہے۔جب تہذیبیں بلند عمارتوں، جدید اسلحے، اور برق رفتار ٹیکنالوجی پر فخر کرنے لگیں، اور دلوں سے رحم، ہمدردی اور بھائی چارے کا جذبہ مٹنے لگے، تو یہ علامت ہوتی ہے کہ انسان نے صرف ترقی کی ظاہری شکل اپنائی ہے، باطن خالی ہو چکا ہے۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس میں سب سے بڑی کمی انسانیت کی ہے۔ ہم نے سائنس سیکھ لی، دنیا کو تسخیر کر لیا، لیکن انسان کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے۔ یہی وہ سبق ہے جس کی ہمیں آج سب سے زیادہ ضرورت ہے انسانیت کا۔

صاحبو انسانیت دراصل اس احساس کا نام ہے جو دوسروں کے دکھ درد میں ساتھ دیتا ہے، بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، بے سہارا کو سہارا دیتا ہے، اور ہر رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر صرف انسان کو انسان سمجھتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ روحانی اور اخلاقی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ نہ بچوں میں بڑوں کا ادب باقی رہا، نہ بڑوں میں چھوٹوں کے لیے شفقت۔ گلی محلوں میں جھگڑے، مساجد و بازار میں تلخی، حتیٰ کہ گھروں کے اندر رشتے ٹوٹنے لگے ہیں۔ یہ سب انسانیت سے دوری کا نتیجہ ہے۔آج کے معاشرے میں یہ احساس کم ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی سڑک پر گر جائے تو لوگ اُسے اٹھانے کے بجائے ویڈیو بنانے لگتے ہیں، کوئی بھوکا ہو تو ہم نظریں چرا لیتے ہیں، اور اگر کسی پر ظلم ہو تو ہم خاموش تماشائی بن کر تماشا دیکھتے ہیں۔روزمرہ زندگی میں اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو کئی ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں جو ہماری بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کوئی بھوکا سڑک کنارے پڑا ہو تو ہم بے پروا گزر جاتے ہیں۔ کوئی یتیم بچے مدد کے لیے پکارے تو ہم آنکھیں چُرا لیتے ہیں۔ کسی بزرگ کو تکلیف ہو تو ہم مصروفیت کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ کیا یہی انسانیت ہے؟ کیا ترقی کا مطلب احساس ختم کر دینا ہے؟

صاحبو یاد رکھیے، انسانیت وہ روشنی ہے جو دلوں کو منور کرتی ہے، جو معاشرے کو بکھرنے سے بچاتی ہے، اور جو ہمیں اللہ کے قریب لے جاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہر، ہمارے خاندان، اور ہمارے دل آباد رہیں، تو ہمیں یہ سبق دل سے پڑھنا ہوگا انسانیت کا سبق۔اسلام کی تعلیمات انسانیت کے بغیر مکمل نہیں۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو سراپا انسانیت ہے۔ آپ نے ہر مظلوم کا ساتھ دیا، دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک فرمایا، اور فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے بہتر ہو۔ آج ہمیں اسی سنت کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ دوبارہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔انسانیت کا درس صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ عملی زندگی میں دیا جانا چاہیے۔ تعلیمی ادارے، مساجد، اور گھریلو تربیت سب کا فرض ہے کہ وہ نوجوان نسل کو یہ بنیادی سبق دیں کہ انسان ہونا سب سے بڑی پہچان ہے۔

اسلام جیسا دین، جو سراسر انسانیت اور فلاح کا پیغام ہے، اُس کے ماننے والے آج خود اس بنیادی تعلیم سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی انسانیت کا عملی مظہر تھی۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ محبت، رواداری اور ایثار کا درس دیا۔ آپ نے غلاموں کو آزاد کروایا، یتیموں کو سینے سے لگایا، اور یہاں تک کہ دشمنوں کو بھی معاف کر کے انسانیت کا بلند ترین معیار قائم کیا۔ لیکن آج ہم اپنے نبی کی تعلیمات کو محض کتابوں کی حد تک محدود کر چکے ہیں۔تعلیمی ادارے ہوں یا دینی مراکز، انسانیت کے اس سبق کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ محض ڈگریاں یا علم حاصل کرنا کافی نہیں، جب تک وہ علم کردار میں نہ اترے۔ ہمیں نئی نسل کو نہ صرف کتابیں پڑھانی ہیں بلکہ دلوں میں انسان دوستی، ہمدردی اور احساس جگانا ہے۔ تبھی ہم ایک پرامن اور مہذب معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا، ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ مگر یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ منفی خبریں اور انتشار پھیلانے والی باتیں زیادہ عام ہو گئی ہیں۔ اگر یہی میڈیا انسانیت، ہمدردی اور محبت کے پیغامات کو عام کرے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔

صاحبو یاد رکھئے، انسانیت کے بغیر کوئی مذہب مکمل نہیں، کوئی علم بامقصد نہیں، اور کوئی ترقی پائیدار نہیں۔ آج اگر ہم خودغرضی، نفرت اور تعصب کے خول سے نکل کر انسانیت کو اپنالیں تو دنیا ایک خوبصورت مقام بن سکتی ہے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ ہم انسان بننے کی طرف لوٹیں، اور دل سے یہ سبق پھر سے پڑھیں انسانیت کا سبق۔

 

Shehzad Aslam Raja
About the Author: Shehzad Aslam Raja Read More Articles by Shehzad Aslam Raja : 19 Articles with 19957 views I am Markazi General Secratary of AQWFP (AL-QALAM WRITERS FOURM PAKISTAN) and Former President of Bazm-e-Adab Govr Sadique Abbas Digree college Dera N.. View More