"طوفان،حیات آباد گراونڈ اور گرے ہوئے ستون – ایک کرپشن کامیڈی"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
گذشتہ روز آنیوالے طوفان نے کچھ خاص نہیں کیا... بس حیات آباد کے کرکٹ گراونڈز کی بلڈنگ کے لوہے کے پلرز گرائے، دو گاڑیاں تباہ کیں، اور عوام کو ایک بار پھر یاد دلا دیا کہ ہم کتنے "بلند معیار" کے ساتھ تعمیرات کرتے ہیں۔ یہ واقعہ پشاور کے پوش علاقے میں پیش آیا، جہاں چائے بھی Bone China کے کپ میں پی جاتی ہے اور منصوبے مٹی کے ڈھیر میں دفن ہو جاتے ہیں۔ کہنے کو یہ وہ علاقہ ہے جہاں خواب دیکھے جاتے ہیں کہ "بین الاقوامی میچز یہاں ہوں گے!" – بس فرق یہ ہے کہ خواب دکھانے والے تو بدلے، پر خواب کی تعبیر آج بھی این ایل سی کے سریے کی شکل میں زمین بوس ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ناقص تعمیرات کا نتیجہ ہے، اور کچھ نڈر لوگ تو اسے "این ایل سی کی کارکردگی" کہنے کی بھی ہمت کر بیٹھے ہیں۔ یعنی وہ ادارہ جس کا نام لینا بھی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے، اب ہر جلسے میں مذاق کبیرہ بن چکا ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے، جانوں کا نقصان نہیں ہوا... کیوں کہ ہم عمارتیں بناتے ہی اسی نیت سے ہیں کہ وہ خود ہی زمین پر آ گرے – تاکہ عوام بچ جائے اور بجٹ کے بل نہ بچیں۔ عوامی سوال ہے کہ اگر یہاں بین الاقوامی میچ ہوتا تو کیا ہوتا؟ جواب واضح ہے: پلرز کی جگہ کھلاڑی گرتے، اور پھر یہ واقعہ "کرکٹ کی تاریخ کا پہلا زندہ ہٹ وکٹ" قرار پاتا! اب جو صحافی اس سارے معاملے کی اصل رپورٹنگ کرتے ہیں، انہیں کہا جاتا ہے کہ "مثبت رپورٹنگ کریں!" یعنی چھت گرے تو لکھیں کہ "ہواوں نے پرواز کے خواب جگائے"، گاڑی دبے تو کہیں "زمین سے جڑنے کا منفرد تجربہ!" تبھی ہم نے پہلے لکھا کہ حیات آباد کرکٹ گراﺅنڈز کی بلڈنگ پر پڑے لوہے کے جنگلوں نے بارش کا مزہ لینے کیلئے سڑک کا رخ کردیا. اور اب نیا بیانیہ آیا ہے: "یہ سب اللہ کی طرف سے تھا، ایک قدرتی حادثہ، ہم ذمہ دار نہیں۔" یعنی اگر پلرز گر جائیں تو یہ "آسمانی آزمائش"، اگر بجٹ غائب ہو جائے تو وہ "روحانی ترقی"، اور اگر سوال پوچھ لیا جائے تو وہ "قومی سلامتی کا مسئلہ" بن جاتا ہے گاڑی دبے تو کہیں "زمین سے جڑنے کا منفرد تجربہ!" اب اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ کرپشن کون کر رہا ہے؟ تو جواب آتا ہے: "ہماری حکومت تو ایماندار ہے۔ باقی سب سابقہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے!" یاد رہے کہ یہ وہی سابقہ حکومتیں ہیں جو 6 ماہ بعد دوبارہ موجودہ بن جاتی ہیں، اور موجودہ سابقہ۔ اب ہوگا کیا؟ کمیٹی بنے گی، پھر اس کمیٹی پر ایک اور کمیٹی، اور بالآخر نتیجہ یہ نکلے گا کہ "بارش زیادہ تھی اور سریا حساس دل والا تھا، برداشت نہ کر سکا۔" اب سوال یہ نہیں کہ پلرز کیوں گرے... سوال یہ ہے کہ آخر ہمیں اب بھی حیرت کیوں ہو رہی ہے؟ یہ کرکٹ گراونڈ، جو کبھی کھیلوں کی پہچان تھا، اب دیانتدار لوٹ مار کی یادگار بنتا جا رہا ہے۔ آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے: "جس ملک میں سچ بولنا جرم ہو، وہاں پلرز نہیں، ضمیر پہلے گرتے ہیں!" |