بال پھینکنے والی مشینیں: جدید ٹیکنالوجی کا زوال یا سرکاری نااہلی کا ثبوت؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
نومبر 2020 میں خیبر پختونخوا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے کھلاڑیوں کی مہارت میں بہتری کے لیے جدید بال پھینکنے والی مشینیں خریدنے کے حوالے سے باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا یہ خریداری سال 2018-19 میں ہوئی تھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی اپنی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ان میں ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن اور ٹینس کھیلوں کے لیے الگ الگ مشینیں شامل تھیں۔ اس منصوبے کو اس وقت کے ڈی جی اسپورٹس اسفندیار خان نے ایک سنگ میل قرار دیا اور بتایا کہ ان تین مشینوں یعنی بیڈمنٹن ‘ ٹیبل ٹینس اور ٹینس کیلئے خریدی جانیوالی مشینوں کی خریداری پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی طرف سے 45 لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی.
یہ مشینیں نوجوان کھلاڑیوں کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دینے کے لیے خریدی گئیں تھیں۔ ان مشینوں میں پروگرامڈ تربیتی موڈز موجود تھے، جن سے نوآموز کھلاڑیوں سے لے کر پیشہ ور ایتھلیٹس تک مستفید ہو سکتے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ مشینوں کے ذریعے انفرادی اور گروہی ٹریننگ کا الگ نظام رکھا گیا تھا، تاکہ ہر کھلاڑی کو اس کی صلاحیت کے مطابق تربیت دی جا سکے۔
ابتداءمیںمیڈیا کے سامنے ان مشینوں کا مظاہرہ کر کے ان کے استعمال کا تاثر دیا گیا، مگر بعد ازاں ان پر خاموشی چھا گئی۔ نہ ان مشینوں کے لیے ٹریننگ سیشنز رکھے گئے، ۔ یہ قیمتی مشینیں صرف ایک بار استعمال ہو کر دفتر کی فائلوں میں دفن ہو گئیں۔مشینیں کہاں گئیں؟ سراغ ندارد! سوال یہ ہے کہ یہ مشینیں اب کہاں ہیں؟سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذرائع کے مطابق: ٹیبل ٹینس کی دو مشینیں خریدی گئیں، مگر اب صرف ایک پشاور میں ہے، دوسری مشین کہیں سٹور میں پڑی ہوئی ہیں کے بیانیے کا شکار ہیں .۔ٹینس کی مشین بھی کہیں سٹور روم میں پڑی ہوئی ہیں کے بیانیے کا شکار ہیں .
ان تین مشینوں کی خریداری کے بعد مزید مشینیں لی گئیں، مگر ان کا حال بھی طارق ودود بیڈمنٹن ہال میں پڑے بیڈمنٹن مشین جیسا ہی ہوگا ‘ گرد آلود اور صرف ایک مرتبہ استعمال کے بعد سائیڈ پر اسے کھڑا کردیا گیا ہے کوچز تو دور کی بات، کھلاڑیوں کو بھی ان مشینوں کے بارے میں علم ہی نہیں۔ یہی حال گواہی دیتا ہے کہ یہ منصوبہ صرف خریداری تک محدود رہا، استعمال میں نہ آ سکا۔صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے طارق ودود ہال میں جہاںپر روزانہ کم و بیش ایک سو کے قریب کھلاڑی ٹریننگ کیلئے آتے ہیں وہیں پر یہ بیڈمنٹن مشین گرد آلود ہو چکی ہیں. اس بارے میں کوچز کا موقف ہے کہ کم و بیش تیس ڈبے شٹل کاک کے اس میں آتے ہیں جس کی لاگت کم و بیش اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے تک بنتی ہے اسی وجہ سے انتظامیہ نے بعد ازاں اس میں دلچسپی نہیں لی.اور یہ مشینیں اسی طرح کھڑی کردی گئی .
دوسری طرف کھیلوں سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوچز اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان مشینوں کے آنے سے انہیں فارغ نہ کیا جائے کیونکہ جتنی تیز رفتاری سے یہ چلتی ہیں اتنے ہمارے کوچز فاسٹ نہیں ‘ اور کم و بیش یہی حال تمام مشینوں یعنی بیڈمنٹن ‘ ٹیبل ٹینس اور ٹینس کے مشینوں کا بھی رہا ‘ فوٹو سیشن اور تصاویر سمیت خبروں کی حد تک یہ سلسلہ تک اچھا رہا لیکن پھر اس پر خاموشی چھا گئی .ٹینس کے مشین کا بھی یہی حال ہے اس بارے میں کوچز کا یہی موقف ہے کہ ان میں استعمال ہونیوالی بال زیادہ ہیں اور کھلاڑی اتنے افورڈ نہیں کرسکتے.نہ ہی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اتنے اخراجات کرتی ہیں.
سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے اندرونی ذرائع کے مطابق بیڈمنٹن کیلئے لی جانیوالی ایک مشین حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کو دی گئی،جبکہ ایک بنوں،اور ایک ایک سوات کو دیدی گئی جبکہ اور دو ویئر ہاو¿س میں پڑی ہیں۔لیکن ان دعووں کی کوئی شفاف تفصیل یا تصدیق شدہ ریکارڈ موجود نہیں۔ نہ تصاویر، نہ آڈٹ رپورٹ، نہ کوئی سالانہ جائزہ۔ اس پورے معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ لاکھوں روپے خرچ ہونے کے باوجود نہ ٹریننگ دی گئی، نہ استعمال ہوا، اور نہ جواب دہی کی گئی۔ یہ بات اس سوچ کی عکاس ہے کہ: منصوبہ ٹھوس ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اخراجاتی شو بازی کے تحت بنایا گیا۔کوچز اور عملے کو نہ تربیت دی گئی، نہ اختیار دیا گیا۔ مانیٹرنگ کا کوئی نظام ہی نہیں بنایا گیا۔ یہ سراسر وسائل کا ضیاع ہے جس کا خمیازہ ان نوجوان کھلاڑیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے جن کے لیے یہ سہولیات خریدی گئیں تھیں۔
موجودہ حالات میں کرپشن ختم کرنے کی دعویداری صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کہ ایک مکمل آڈٹ رپورٹ شائع کرے کہ یہ مشینیں کہاں گئیں؟ جن مشینوں کا استعمال نہ ہو سکا، ان کے ذمہ داران کے خلاف محاسبہ کیا جائے۔ ہر مشین کی ڈیجیٹل لوکیشن، ویڈیو، اور تربیتی سیشن کو عوامی بنایا جائے۔مستقبل میں ایسی خریداریوں کے لیے شفافیت، فالو اپ، اور استعمال کا پلان لازمی قرار دیا جائے۔کھلاڑیوں اور کوچز کو نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں باقاعدہ ورکشاپس دی جائیں۔بال پھینکنے والی مشینوں کی یہ کہانی خیبر پختونخوا میں کھیلوں کی ترقی کے دعووں پر سوالیہ نشان ہے۔ٹیکنالوجی خودکار نہیں چلتی، اسے علم، نیت اور نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ناکامی صرف مشینوں کی نہیں، بلکہ ایک پورے نظام کی بدانتظامی اور عدم دلچسپی کی غماز ہے۔
#kikxnow #digitalcreator #sportnews #mojo #mojosports #kpk #kp #pakistan #badminton #tabletennis #tennismachine #gamessports #musarratullahjan
|